Maktaba Wahhabi

212 - 268
یہ ہے وہ جامع اصول جس کی مسلمانوں کی ہدایت کی گئی ہے۔ دشمن کی کارر وائیاں جارحانہ ہوں یا ظالمانہ اور منتقمانہ ہر جگہ یہی اصول مدنظر رکھا جائے گا۔ (۳) مفتوحین سے سلوک : سترھویں صدی کے آغاز تک اقوام مغرب بھی اس قدیم قدرتی حق کی قائل تھیں کہ جو شہر بروز شمشیر فتح ہو تو فاتحین کو یہ حق حاصل ہوتا ہے۔ کہ مفتوحہ شہر میں گھس کے بے دریغ قتل وغارت کریں ۔ انہیں امان دینے کا بھی کوئی تصور موجود نہ تھا۔اگرچہ جنگ سی سالہ کی وحشت وبربریت دیکھنے کے بعد یورپ کا ضمیر اسے بُرا سمجھنے لگا تھا تاہم بعدمیں ہونے والے معرکوں میں اس کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا۔ 1790ء میں ترکی اور روس میں جنگ چھڑ گئی روسی فوجیں فتحیاب ہوکر اس میںداخل ہوئیں تو انہوں نے مقاتلین وغیر مقاتلین سب کو تلوار کے گھاٹ اُتارا۔ 1837ء میں فرانس نے قسطنطنیہ فتح کیا تو اس کی فوجیں مسلسل تین دن قتل وغارت میں مشغول رہیں۔ 1857ء میں انگریزی فوجوں نے دلّی کو فتح کیا تو آزادی سے قتلِ عام کا بازار گرم کیا۔ بالآخر 1899ء کی ہیگ کانفرنس میں یہ طے پایا کہ بزورشمشیر فتح ہونے والے شہروں میں قتل وغارت اور لوٹ مار نہیں کی جائے گی مگر عملاً یہ طریقہ پھر بھی بند نہ ہوا۔ 1920ء میں یورپ کی مہذب ترین سلطنتوں کے زیر سرپرستی یونانیوں نے سمرنا اور تھریس میں داخل ہوکر غیر مقاتل شہری آبادیوں کے ساتھ اسی قدیم وحشت کا مظاہرہ کیا۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ مغرب کا قانون بڑی طاقتوں کے سامنے بالکل بے بس ہے۔ اور آئندہ بھی ایسا ہی ہونے کا امکان ہے۔ نظری اعتبار سے تو یہ قانون اسلامی قانون سے ملتا جلتا ہے۔ لیکن عملاً اس کی پابندی مشکل ہے۔ کیونکہ اس قانون میں حجت بننے کی اہلیت نہیں ہے۔ (ج) موافق قوانین (۱) غیر مقاتل افراد کے حقوق: گروٹیوس نے اپنی تاریخی کتاب میں ایک یہ سفارش کی تھی کہ: جنگ میں بطور ایک شریفانہ رعایت کے (نہ کہ بطور ایک قانون کے) بچوں، بوڑھوں،
Flag Counter