چکے تھے اور جنہیں مسلمان جانتے بھی نہیں تھے ۔سب پیس ڈالے جاتے۔اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو سورہ فتح میں ان الفاظ میں بیان فرمایاہے :۔ ﴿ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُوْنَ وَنِسَاۗءٌ مُّؤْمِنٰتٌ لَّمْ تَعْلَمُوْهُمْ اَنْ تَـــطَــــُٔوْهُمْ فَتُصِيْبَكُمْ مِّنْهُمْ مَّعَرَّةٌۢ بِغَيْرِ عِلْمٍ ﴾ (اور اگر ’’شہر مکہ میں‘‘ کچھ مسلمان مرد اور کچھ مسلمان عورتیں نہ ہوتیں کہ تم ان سے نا واقف تھے (اور لڑائی کی صورت میں) تم ان کو پامال کر ڈالتے اور بے خبری میں تم کو ان کی طرف سے نقصان پہنچ جاتا۔) (۲) جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے ایک دن بھی امن وچین کا نہیں گزارا تھا اِدھر قریش مکہ دشمن تھے اور یہود مار آستین بنے ہوئے تھے۔ جو دوسرے قبائل کو ساتھ ملا کر ہر وقت جنگ کی فضا قائم رکھتے تھے کیونکہ یہود کے حملے کا خطرہ تھا۔ اندریں صورت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو دشمنوں میںِ ایک سے ہر قیمت پر صلح کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ یہاں سے واپس جاکر سب سے پہلے خیبر فتح کرکے یہودی فتنہ کا استیصال کیا گیا۔ (۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے بھی قریش سے صلح چاہتے تھے کہ ادھر سے فارغ ہوکر اپنا فریضہ رسالت بیرونی دنیا تک پہنچائیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس جاکر ۷ ھ میں شاہان عجم کو تبلیغی خطوط لکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ کے نتائج سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ چنانچہ بعد میں سریہ موتہ اور غزوۂ تبوک انہیں تبلیغی خطوط کے نتیجے میں سامنے آئے۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش سے صلح اور یہود کا استیصال کرکے فریضہ رسالت کی سرانجام دہی کے لیے اندرونی طور پر مطمئن ہونا چاہتے تھے۔ (۴) صلح حدیبیہ نے یہ ثابت کردیا کہ مسلمان ایک صلح جوا ور اصول پرست قوم ہے۔ انہی باتوں سے متاثر ہوکر صلح حدیبیہ کے بعد بہت سے قبائل نے اسلام قبول کیا۔ ان نو مسلموں میں خالد بن ولید فاتح ایران اور عمرو بن عاص فاتح مصر جیسے جرنیلوں کے کے نام بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ (۵) قریش کا جنگ سے ہٹ کر صلح پر اُترآنا اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ اب وہ مسلمانوں کو خانماں برباد اور ستم رسیدہ مہاجر نہیں سمجھتے بلکہ اپنا ہم پلّہ سمجھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ انہوں نے مدینہ کی آزاد ریاست کو قبول کر لیا تھا۔ اور نیز یہ بھی کہ وہاں کا سرکاری |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |