Maktaba Wahhabi

113 - 268
کوئی وحی نازل ہو جس سے مسلمانوں کا یہ ذہنی کرب دور ہو سکے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے مدّبر سیاستدان بھی ان شرائط کو قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ وہ بیقراری کی حالت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ تسلیم و رضا کے پیکر تھے ۔ انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی ایسی ہی تلقین کی۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ اور پوچھنے لگے۔ ’’کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے پیغمبر نہیں؟ کیا ہم حق پر نہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں باتوں کا جواب اثبات میں دیا تو کہنے لگے تو پھر ہم یہ توہین آمیز شرائط کیوں قبول کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی صبر کی تلقین کی۔ اس دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا لہجہ بھی قدرے تلخ تھا۔ جس کا آپ رضی اللہ عنہ کوساری زندگی افسوس رہا اور توبہ استغفار فرماتے رہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مسلمان کہنے کے باوجود قربانی پر آمادہ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کا جانور ذبح کیا۔ جس کی دیکھا دیکھی سب مسلمانوں نے اپنے اپنے جانور ذبح کیے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپسی کا سفر اختیار کیا۔ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ وحی نازل ہو ئی۔ ﴿ اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا Ǻ۝ۙ ﴾ (۴۸/۱) (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تمہیں فتح مبین عطا فرمائی۔ ) گویا وحی الٰہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بصیرت سے پوری طرح ہمنوا تھی۔ اور وہ شرائط جنہیں مسلمان توہین آمیز سمجھ رہے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح مبین قرار دیا۔ اب ہم دیکھیں گے تو یہ توہین آمیز شرائط کیسے فتح مبین ثابت ہوئیں اور نیز یہ بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ اتنی دور رس تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے مدبر سیاست دان کی نگاہ اس کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکی تھی۔ صلح کیوں کی گئی؟ اس واقعہ میں سب سے نمایاں چیز جو ہمیں نظر آتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ سوائے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قیمت پر جنگ کرنے سے گریز کرتے رہے اور صلح پر مصر رہے جب یہ معلوم ہوگیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی افواہ غلط تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی طور پر لڑائی کا خیال چھوڑ دیا اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں:۔ (۱) اگراس وقت صلح نہ کی جاتی اور جنگ چھڑ جاتی تو وہ مرد اور عورتیں جو مکہ میں مسلما ن ہو
Flag Counter