(۳) امام بخاری رحمہ اللہ نے درج ذیل عنوان سے باب قائم کیا ہے۔ «اِذَا قَالُوْا صَبَانَا وَلَمْ یُحْسِنُوْا اَسْلَمْنَا وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ فَجَعَلَ خَالِدٌ یَقْتُلُ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اَبْرَءُ اِلَیْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ وَقَالَ عُمَرُ اِذَا قَالَ "مترس" فَقَدْ اٰمَنَهُ اِن اللّٰهَ یَعْلَمُ الْاَلْسِنَةَ کُلَّها»[1] اگر کافر لڑائی کے وقت (گھبراکر) اچھی طرح یوں نہ کہہ سکیں کہ ہم مسلمان ہوئے بلکہ یوں کہیں کہ دین بدل دیا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے (بنی ہدبہ کی جنگ میں) کافروں کو مارنا شروع کردیا(حالانکہ وہ کہتے جاتے تھے ہم نے دین بدلا۔ ہم نے دین بدلا) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سنا تو فرمایا۔ یا اللہ میں خالد کے کام سے بیزار ہوں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ جب کسی مسلمان نے کلمہ کہا’’مترس‘‘ (یعنی نہ ڈرو) تو اس کو امان دے چکا (اس کو مارنا درست نہیں) کیونکہ اللہ تو سب زبانیں جانتا ہے۔ ’’مترس ‘‘ کے معنی ہیں ’’نہ ڈرو‘‘ یہ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ (۴) علامہ طبری اس واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض سرایا صرف دعوت اسلام کے لیے بھیجے تھے لڑنے سے منع کیا گیا تھا اس کے باوجود حضرت خالد بن ولید ص نے تلوار سے کام لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا تو قبلہ رو کھڑے ہوکر تین بار کہا یا اللہ! میں خالد کے کام سے بری ہوں۔ پھر حضرت علیص کو بھیجا ۔ جنہوں نے ایک ایک بچے کا یہاں تک کہ کتوں کا خوں بہا ادا کیا اور اس پر مزید رقم دی۔ (تاریخ طبری ج ۳ص۱۶۵۱) (۵) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: «بَعَثْنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ سَرِیَّةً اِلَی الْحُرْکَاتِ فَنَذَرُوْا بِهَا فَهَرَبُوْا فَادْرَکْنَا رَجُلًا فَلَمَّا غَشَیْنَاهُ قَالَ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ فَضَرَبْنَاهُ حَتّٰی قَتَلْنَاهُ، فَذَکَرْتُهُ للِنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَنْ لَكَ بِلَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهَ یَوْمَ القِیَامة؟"فقلت یا رسول الله : انما قالها مخافة السلاح۔ قال: افلا شققت عن قلبهٰ حتّٰی تعلم من اجل ذلك قالها ام لا؟ من لك بلا الٰه الا اللّٰه یوم القیمة" فمازال یَقُوْلُهَا حَتّٰی وَدِدْتُّ انّی لَمْ اُسْلِمْ اِلَّا یَوْمَئِذٍ» (ابو دا ؤ د۔ کتاب الجهاد ۔ باب علی ما یقاتل المشرکون بخاری۔ کتاب المغازی ۔ باب بعث النبی اسامه بن زید الی الحرقات) (ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حُرقات کی طرف ایک سریہ پر بھیجا … وہ لوگ ہمیں دیکھ کر اپنا علاقہ چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ ایک شخص کو ہم نے جا لیا۔ تو اس نے کہہ دیا… لاالہ الااللہ، ہم نے اُسے تلوار سے مارا یہاں |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |