تک کہ جان سے مار ڈالا۔ پھر میں نے حضورا سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن جب وہ اس کلمہ کے ساتھ تم سے جھگڑے گا تو تمہارا کیا حال ہوگا؟‘‘ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے تو ہتھیاروں کے ڈر سے کلمہ کہہ دیا تھا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ واقعی اسی وجہ سے اس نے کلمہ پڑھا۔ پھر آپ برابر یہی الفاظ دھراتے رہے۔ ’’قیامت کے دن تمہارا کیا حال ہوگا‘‘ یہاں تک کہ میں چاہنے لگا۔ کاش ! میں آج کے دن ہی اسلام لایا ہوتا-) (۶) حضرت مقداد بن عمر الکندی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: «اَنَّهُ قَالَ لِرَسُوْ ل اللّٰه علیه وَسَلَّمَ اَرَأیتَ اِنْ لقیتُ رَجُلًا من الْکفَّارِ فَاقْتَتَلْنَا فَضَرَبَ احدی یَدَیَّ بِاالسِّیْفِ فَقَطَعَهَا ثُمَّ لَا ذَمَنِیْ بِشَجَرَةٍ فقال اَسْلَمْتُ لِلّٰهِ اَقْتُلُهُ یَا رَسُوْل اللّٰهِ بَعْدَ اَنْ قَالَهَا؟ فَقَالَ رَسول اللّٰه صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَقْتُلْهُ" فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اِنَّهُ قَطَعَ اِحْدٰی یَدَیَّ ثُمَّ قَالَ ذٰلِكَ بَعْدَ مَا قَطَعَهَا؟ فَقَالَ رَسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وَسَلَّمَ: لَا تَقْتُلْهُ»[1] (حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بتلائیے۔ اگر میں ایک کافر سے مقابلہ کروں پھر وہ کافر تلوار سے میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالے۔ اس کے بعد ایک درخت کی پناہ لے کے مجھ سے کہے میں اللہ کا تابعدار بن گیا۔ (مسلمان ہوگیا) اب میں اسے قتل کردوں جبکہ وہ الفاظ کہہ چکا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں اس کو قتل نہ کر‘‘۔ مقداد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے تو میرا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا اور ہاتھ کاٹنے کے بعد ایساکہنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (کچھ بھی ہو) اس کو قتل نہ کرو‘‘۔ ) (۷) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کسی شخص کے متعلق حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے ہیں: «قَالَ خَالِدُ بن الولید یا رسول الله اَلَا اَضْرِبُ عُنُقَهُ قَالَ لَا: لَعَلَّهُ اَنْ یَکُوْنَ یُصَلّیْ ؟ فَقَالَ خَالِدٌ وَکَمْ مِنْ مُصَلٍّ یَقَوْلَ بِلِسَانِه مَالَیْسَ فِیْ قَلْبِه۔ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اِنِّیْ لَمْ اُؤْمَرْاَنْ اَنْقَلَبَ قُلُوْبَ النَّاسِ وَلَا اَشُقَّ بَطُوْنَهُمْ»[2] (خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ۔ میں اس |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |