Maktaba Wahhabi

123 - 268
انصاف اور جرأت ہوتی تو کبھی رحم کی اپیل نہ کرتے۔ انہیں اپنے مظالم خوب یاد تھے۔ مگر جب جان پر بن گئی تو کہنے لگے: خَیْراً اَخٌ کَرَیْمٌ وَاِبْنُ اَخٍ کَرَیْمٍ ہمیں بھلائی کی توقع ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شریف بھائی اور شریف برادرزادہ ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں بھی حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح تم سے وہی کچھ کہوں گا، جو انہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا۔ یعنی «لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ اِذْ هَبُوْا اَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ[1]» (آج تم پر کوئی گرفت نہیں ۔جا ؤ تم سب آزاد ہو۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم معافی کے اس عام اعلان سے پہلے ہی مندرجہ ذیل فرامین جاری کرچکے تھے: (۱) جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے قتل نہ کیا جائے۔ (۲) جو خانہ کعبہ کے اندر پہنچ جائے اسے قتل نہ کیا جائے گا۔ (۳) جو شخص ابو سفیان یا حکیم بن حزام کے گھر میںپناہ لے لے اسے بھی قتل نہ کیا جائے۔ (۴) معذور کا تعاقب نہ کیا جائے۔ (۵) بوڑھوں، بچوں، عورتوں اور زخمیوں کو قتل نہ کیا جائے۔ (مسلم، کتاب الجہاد والسیر ۔ باب فتح مکہ) اب دیکھ لیجئے کہ باقی کون رہ جاتا ہے جسے قتل کیا جائے؟ الا یہ کہ کوئی شخص خود ہی اپنی موت کو دعوت دے رہاہو۔ (۶) مہاجرین مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ انہیں ان کی مملوکہ جائیداد تو واپس دلا دیجائے ۔ جس پر بعد میں قریش قابض ہوگئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:’’ جو چیز اللہ کی راہ میں چھوڑ چکے ہو اب اس کا مطالبہ نہ کرو‘‘۔ چنانچہ مہاجرین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے سامنے برضاء ورغبت سرتسلیم خم کردیا[2]۔ یہ تھی سرزمین حجاز کی وہ مرکزی جنگ جس میں نہ قتل ہوا نہ قتل عام، نہ قیدی بنائے گئے
Flag Counter