Maktaba Wahhabi

95 - 268
کی تحقیق کر آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابو طلحہ کے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار تھے۔ گلے میں تلوار لٹکائی ہوئی تھی اور فرما رہے تھے۔ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔) اب دیکھئے مدینہ پر دشمن کے کسی بھی وقت حملے کا ہراس بھی طاری تھا۔ اس حال میں ایک معمولی افواہ بھی یقین کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ پھر لوگوں نے کچھ اس قسم کی آواز بھی سنی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ دشمن کس تعداد میں ہے اور ان سب باتوں کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کسی کو ساتھ لیا اور نہ کسی کا انتطار کیا۔ اس صورت حال میں اکیلے بڑھ کر اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دینا آپ کی شجاعت کی زبردست دلیل ہے۔ (۲)جنگ احد: جنگ احد میں جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا ہوا اور ابن قمیۂ نے یہ افواہ پھیلا دی کہ (نعوذ باللہ) محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل ہو گئے ۔ تو اس وقت مسلمانوں پر اس قدر بدحواسی طاری ہوگئی تھی کہ انہیں دوست و دشمن کی بھی تمیز نہ رہی۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد حضرت یمان ص مسلمانوں کے ہی ہاتھوں شہید ہوگئے۔ حالانکہ حضرت رضی اللہ عنہ پکار پکار کر کہتے رہے کہ یہ میرے والد ہیں۔ لیکن اس بدحواسی کے عالم میں کسی کی کون سنتا ہے؟ مسلمانوں میں سے ایک گروہ نے مایوس ہو کر جنگ بندی کردی۔ ایک فریق میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ اس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے میدان میں کھڑے مسلمانوں کوواپس بلا رہے تھے۔ اس حالت کا نقشہ اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:۔ ﴿ اِذْ تُصْعِدُوْنَ وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰٓي اَحَدٍ وَّالرَّسُوْلُ يَدْعُوْكُمْ فِيْٓ اُخْرٰىكُمْ ﴾ (۳:۱۵۳) (جب تم بگٹٹ دوڑے جا رہے تھے اور باوجود یہ کہ پیغمبر پچھلے گروہ میں رہ کر تم کو بلا رہا تھا۔ لیکن تم مڑ کر بھی کسی کو نہیں دیکھتے تھے۔) اس حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیزی سے دشمن کی طرف چلے جا رہے تھے ۔ آپ نے شکستہ دل فوج کو اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰهِ، اِلَیَّ عِبَادَ اللّٰهِ‘ اَنَا رَسُوْ لَ اللّٰه ِکے آواز ے دے کر جمع کیا، جنگ کی پلاننگ میں فوری تبدیلی کی اور ایسا سنبھل کر مقابلہ کیا کہ دشمن اپنے مقصد میں کامیاب نہ
Flag Counter