کردئیے جس کی مثال پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے۔ قرآن کریم اس یکجہتی کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے: ﴿وَاذْ کُرُوا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بِیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِه اِخْوَانًا﴾(آلِ عمران :103) (اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ہے اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔) بلا شبہ چنگیز خاں نے بھی اپنے چچا زاد بھائیوں کو ساتھ ملا کر یک جہتی پیدا کرنے میں نمایاں اہلیت کا ثبوت دیا۔ لیکن اس نے جن لوگوں کو اکٹھا کیا اور جتھہ بندی کی، ان کا مفاد مشترکہ تھا اور وہ تھا ہوس ملک گیری۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن لوگوں کو اکٹھا کیا ان کے سامنے دنیوی مفاد کے بجائے مصائب وتکالیف کے پہاڑ نظر آتے تھے۔ یہ لوگ مسلمان پہلے تھے اور فوجی بعد میں بنے: (۴) مادی وسائل: سکندر اعظم جب یونان سے نکلا تو 30ہزار کی مسلح فوج اس کے ہمراہ تھی۔ چنگیز خاں نے اپنے پڑدادا کی اولاد میں یک جہتی پیدا کرنے میں 20سال صرف کردیے۔ اور جب وہ خوارزم شاہ کے مقابلہ میں نکلا تو بیس ہزار مسلح افواج اس کے ساتھ تھیں، نپولین کو حکومت فرانس کی تربیت یافتہ فوج 20ہزار کی تعداد میں مہیا ہوگئی تھی۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بدر میں پہلی جنگ لڑنا پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا تھا۔ صرف تین سو افراد ، وہ بھی ایسے جو یہ بھی پوری نہ جانتے تھے کہ ہمیں قریش کے قافلہ تجارت کا رُخ کرناہے یا کفار کے اس مسلح لشکر سے پالا پڑنے والا ہے، جو قافلہ تجارت کی حفاظت کے لیے آرہاہے۔ پھر جب یہ حالات نے یہ فیصلہ کردیا کہ قریش کے مسلح لشکر سے مقابلہ ہوگا۔ تو ان میں سے بھی کچھ مسلمان ایسے تھے جو دل چھوڑ بیٹھے تھے۔ کیونکہ انہیں اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی۔ قرآن کریم نے اس منظر کا نقشہ ان الفاظ میں پیش کیا ہے:۔ ﴿ كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْۢ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ ۠ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ Ĉۙ يُجَادِلُوْنَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَمَا تَبَيَّنَ كَاَنَّمَا يُسَاقُوْنَ اِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُوْنَ Čۭ ﴾ (۸: ۵، ۶) (جیسے تمہارے پروردگارنے تمہیں تدبیر کے ساتھ تمہارے گھر سے نکالا۔ اور اس وقت مومنوں کی ایک جماعت ناخوش تھی۔ وہ لوگ حق بات میں اس کے ظاہر ہوئے |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |