اب اس کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات بھی سن لیجئے کہ کیسے نازک موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفائے عہد پر اپنے ہر طرح کے مفادات کو قربان کردیا۔ (۱) اسی بئر معونہ کے حادثہ میں ایک صحابی عمرو بن امیہ بچ نکلے لیکن بعد میں گرفتار ہوگئے۔ عامر بن طفیل، جس نے ان قاریان کو شہید کروایا تھا…نے عمرو رضی اللہ عنہ بن امیہ کو دیکھ کر کہا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی۔ لہٰذا میں یہ منت پوری کرنے کی خاطر عمرو بن امیہ کو چھوڑتا ہوں۔ عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کو راستے میں اسی قاتل قبیلہ کے دوافراد مل گئے تو آپ نے ان کو قتل کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دو آدمیوں کو امن دے چکے تھے۔ جس کا عمرو بن امیہ کو علم نہ تھا۔ اب حالات کا تقاضا یہ تھا کہ بنو عامر سے جتنی بھی ہوسکے ان کی غداری کی وجہ سے ان پر سختی برتی جاتی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہوئے ان دونوں آدمیوں کا خون بہا ادا کردیا[1]۔ (۲) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو حسیل رضی اللہ عنہ کسی سفر میں کفار کے ہتھے چڑھ گئے۔ انہوں نے جنگ میں عدم شرکت کا وعدہ کیا تب ان کی جان چھوٹی۔ جنگ بدر میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا۔ اس وقت مسلمانوں کو ایک ایک آدمی کی اشد ضرورت تھی۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگ میں شامل ہونے کی اجازت نہ دی اور فرمایا’’ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مدد درکار ہے‘‘۔[2] (۳) صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا چکی تھیں لیکن ابھی معاہدہ پردستخط نہیں ہوئے تھے۔ کہ قریش کے نمائندہ سہیل بن عمرو کے لڑکے ابو جندل رضی اللہ عنہ قید سے فرار ہوکر پابہ زنجیر مسلمانوں کے سامنے گر گئے۔ وہ اپنے زخم دکھادکھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کررہے تھے کہ آپ مجھے واپس نہ کیجئے ، مسلمان پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے، تڑپ اُٹھے ، بیعت رضوان مکمل ہوچکی تھی۔ اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کی ناراضی کی پروانہ کرتے ہوئے محض ایفائے عہد کی خاطر ابو جندل کو واپس کردیا۔اور فرمایا۔ ’’ابو جندل رضی اللہ عنہ اصبر اور ضبط سے کام لو ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اور مظلوموں کے لیے کوئی |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |