سرانجام دیتا تھا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں مملکت اسلامیہ میں وسعت ہوئی دس صوبے بنائے گئے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں گیارہ صوبے تھے۔ دور فاروقی میں والی کے فرائض کو دو الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ داخلی امن کے لیے محکمہ پولیس تشکیل دیا گیا۔ اور دفاع وغیرہ کے لیے محکمہ فوج ۔ ایک اسلامی ریاست میں تعلیم کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ کیونکہ تعلیم ہی اسلامی نظریہ حیات کی روحِ رواں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے معلم بنا کر بھیجا تھا۔ ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہروقت اور ہر کسی کو تعلیم دیتے رہتے تاہم اصحاب صفہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی توجہ رہتی تھی۔ اصحاب صفہ دراصل اس دور کی یونیورسٹی تھی۔ یہ حضرت چوبیس گھنٹے مسجد نبوی میں رہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور کردار دونوں باتوں سے مستفیض ہوتے تھے۔ اسی یونیورسٹی سے سینکڑوں معلم‘ مبلغ‘ واعظ اور قاری تیار ہوتے جو دوسرے علاقوں میں تعلیمی فرائض سرانجام دینے کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تعلیم کو بہت ترقی دی اور تمام والیوں اور عاملوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا کہ لوگوں کو کتاب وسنت کی تعلیم دیں ۔ اس ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ایک بار فرمایا کہ اے اللہ ! میںاپنے تمام علاقوں کے عاملوں پر تجھ کو گواہ ٹھہراتا ہوں کہ میں نے انہیں اس لیے مقرر کیا ہے کہ کتاب وسنت کی تعلیم دیں‘‘۔ تمام افسروں کا تقرر کرتے وقت اس بات کا خیال رکھتے کہ وہ عالم اور فقیہہ بھی ہوں۔ملکی افسروں کی فہرست میں بڑے بڑے ممتاز علماء کے نام پائے جاتے ہیں۔ قرآن وحدیث کے علاوہ زبان و ادب اور حساب وریاضی کی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی۔ حساب دان تیار ہوئے حساب کے کا غذات نقشہ جات، دفاتر، محاصل کا باقاعدہ حساب اور سن ھجری کا اجراء آپ رضی اللہ عنہ ہی کے عہد میں ہوا۔ احتساب سے مراد یہ ہے کہ رعایا کے اعمال وافعال پر کڑی نظر رکھی جائے آیا اس میں دیانتداری سے کام لیتے ہیں۔ یامکروفریب اور بددیانتی کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ منڈی تشریف لے گئے۔ گندم کا ایک ڈھیر برائے فروخت پڑا تھا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے اندر ہاتھ داخل کیا تو نمی محسوس ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گندم کے مالک سے کہا۔ ’’یہ کیا بات ہے؟‘‘ مالک نے کہا رات شبنم کافی پڑی تو یہ گیلی ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو پھر تم نے اسے باہر کیوں نہیں |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |