پندرہ سولہ برس کی تھی۔ اس وقت آپ کو اجازت مل گئی۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب غزوۃ الخندق) جنگ احدکے موقع پر جب عبداللہ بن ابی منافق اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر واپس چلا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی ماندہ فوج کا جائزہ لیا۔ اور مندرجہ ذیل پانچ کمسن صحابہ ث کواس بنا پر فوج سے خارج کر دیا۔ کہ وہ ابھی حد بلوغ کو نہیں پہنچے تھے۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ‘ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ‘ حضرت عرایہ اوسی رضی اللہ عنہ ‘ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت براء بن عازب۔اس واقعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت وقت عمر کے متعلق یہ تعین کر سکتی ہے کہ اتنی عمر سے کم بھرتی نہیں کیا جا سکتا۔ (۴)قد و قامت اور جسمانی طاقت: اسی موقعہ پر جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فوج کا جائزہ لے رہے تھے تو چند نوخیز اور شوق جہاد سے سرشار نوجوانوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اجازت حاصل کر لی ان میں سے ایک رافع بن خدیج ہیں۔ جب ان سے کہا گیا کہ تم چھوٹے ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نگوٹھوں کے بل تن کر کھڑے ہو گئے تاکہ قد پورا نظر آئے۔ آپ کی یہ تدبیر کار گر ثابت ہوئی۔ تو ایک دوسرے نوجوان سمرہ نے یہ سوال پیدا کر دیا کہ میں رافع سے کسی طرح کم نہیں اور میں اسے کشتی میں پچھاڑ سکتا ہوں۔ اگر رافع کو اجازت مل گئی ہے تو مجھے بھی ملنی چاہئے۔ چنانچہ ان دونوں میں کشتی کرائی گی۔ فی الواقع سمرہ نے رافع کو پچھاڑ دیا۔ لہٰذا انہیں بھی اجازت مل گئی۔ (طبری ج۲ ص ۱۳۹۱) یہ تھا ان پاک باز ہستیوں کا شوق جہاد۔ عمر اور قد سے متعلق یہ واقعات سب کتاب تاریخ مثلاً طبری‘ ابن ہشام اور البدایہ وغیرہ میں مذکور ہیں۔ اس واقعہ سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں۔ (۱) حکومت مجاہدین کے قد اور جسمانی طاقت کا ایک معیار قائم کر سکتی ہے۔ (۲) اگر کسی نوجوان میں کسی ایک پہلو میں معیار سے کچھ کمی بھی ہو۔ لیکن وہ جذبہ جہاد سے سرشار ہو تو متعلقہ افسر اس کی بھرتی کی اجازت دے سکتا ہے۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |