باب سوم:میدانِ کارزار اور فوج کو لڑانے کی مہارت جب دونوں متحارب فریق آمنے سامنے آجائیں تو ایک بہتر جرنیل کو مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ (۱) میدانِ جنگ کا صحیح انتخاب : میدانِ جنگ کا صحیح انتخاب بھی فتح کا ایک موثر سبب ہوتا ہے۔جنگ بدر کے موقع پر قریش مکہ نے پہلے پہنچ کر حسب پسند مقامات پر قبضہ کر لیا۔جو جنگ کے لیے موزوں سمجھتے تھے۔ناچار مسلمانوں کو ایسی جگہ پڑا ؤ ڈالنا پڑا جہاں نہ کوئی کنواں تھا نہ چشمہ زمین ریتلی تھی جہاں پا ؤ ں بھی نہیں جم سکتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سی سوچ میں تھے کہ ایک صحابی حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اس مقام پر پڑا ؤ ڈالنا جنگی تدبیر ہے یا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ جنگی تدبیر سے تعلق رکھتا ہے۔‘‘ حباب رضی اللہ عنہ نے کہا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو آگے لے چلیں چشمہ پر قبضہ کر لیں اور تالاب بنا کر پانی سے پر کر لیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اس تجویز پر عمل کیا۔[1] یہ جگہ کفار کے پڑا ؤ سے اونچی تھی۔مزید براں اللہ تعالیٰ کی مہربانی یہ ہوئی کہ مینہ برس گیا۔زمین جم کر اور سخت ہوگئی۔جبکہ اسی پانی نے نیچے بہہ کر کفار کے پڑا ؤ میں دلدلی کیفیت پیدا کردی۔اس موقع پر بارش کا نزول دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کی مدد اور خاص رحمت تھی۔‘‘ دوسری تدبیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کی کہ صحابہ ثکے مشورہ سے اپنا خیمہ ایک ایسے بلند مقام پر نصب کیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیروں کی زد سے بھی محفوظ رہ سکتے تھے اور لڑائی کا نقشہ بھی بخوبی ملاحظہ فرما سکتے تھے۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |