اخلاقی جھجک محسوس کریں گے۔ ان چند در چند اقدمات کا یہ اثرہوا کہ مدینہ کی چھوٹی سے نوزائیدہ ریاست عرب میں متعارف ہو گئی۔ اور اندرونی استحکام کے لحاظ سے بھی یہ اقدامات اطمینان کا باعث بنے۔ (۲) ہمسایہ قبائل سے تعلقات: مبادیات جنگ میں دوسری اہم چیز اپنے ہمسایہ ممالک سے تعلقات ہیں- اگر ان سے تعلقات خراب ہوں تو عین ممکن ہے کہ جنگ کے دوران یہ لوگ دشمن سے مل کر اس کے ہاتھ مضبوط کر دیں یا جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی پہلو سے مرکز پر حملہ کر دیں۔ لیکن اگر ان سے تعلقات اچھے ہوں تو وہ خواہ جنگ میں کوئی مفید خدمت انجام نہ بھی دے سکیں ان سے نقصان کا احتمال بہت کم رہ جاتا ہے۔ اندرونی استحکام سے فراغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلو پر بھی خصوصی توجہ دی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: (ا) ہجرت سے تقریباً ایک سال بعد اپنے چند جاں نثاروں سمیت موضع ودان کا رخ کیا۔ اس سفر کو غزوہ[1]ودان یا غزو ۂ ابواء کہا جاتا ہے۔ وہاں قریش کا ایک قبیلہ بنو ضمرہ آباد تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ کے سردار عمرو بن محشی الضمری سے مل کر درج ذیل شرائط پر معاہدہ کیا: (ا) یہ قبیلہ قریش کی کسی طرح سے بھی مدد نہیں کرے گا اور غیر جانبدار رہے گا۔ (ب) اپنے علاقے میں امن بحال رکھے گا۔ (ج) جنگ کے علاوہ آئندہ تنازعات میں بھی غیر جانبدار رہے گا۔ ۳۔اس واقعہ کے چند ماہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام ذوالعشیرہ تشریف لے گئے یہ مقام ینبوع کے پاس آباد ہے۔ یہاں قریش کا قبیلہ بنو مدلج آباد تھا۔ جو بنو ضمرہ کا حلیف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو ضمرہ کے حوالے سے اس قبیلہ کے ساتھ بھی انہیں شرائط پر معاہدہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر غزوۂ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |