جنگ سے فرار کی کوئی شکل اللہ نے نہیں بتائی البتہ اس کا گناہ بہت بڑا بیان کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جنگ سے فرار انفرادی جرم نہیں جب ایک شخص راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔ تو اس کے ساتھیوں کے دلوں میں بھی خوف کے اثرات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اور اس طرح دوچار آدمیوں کے بھاگ کھڑا ہونے سے پوری ٹولی کے پا ؤ ں اکھڑ جاتے ہیں ۔ اس طرح صف یعنی محاذ میں شگاف پیداہوجاتا ہے۔ اور دشمن اس شگاف سے داخل ہوکر پُورے لشکر کو گھیرے میں لے سکتا ہے۔ اسی لیے محاذ سے بھاگنے والوں کو دنیا کی ہر فوج میں گولی سے اُڑا دیا جاتا ہے۔ فرار ہونے والا سپاہی اپنی ہی موت کا سبب نہیں ہوتا بلکہ پوری قوم کے تحفظ وبقا پر کاری ضرب لگاتا ہے۔ ما ؤ ںبہنوں ، بیٹیوں کی عصمت کے نگہبان ہاتھ جب دشمن کی ہتھکڑیاں پہن لیں یا بھاگتے ہوئے مارے جائیں تو پھر قوم کی ما ؤ ں بہنوں کی عصمت بھی پناہ سے عاری ہوجاتی ہے۔ (۱۰) معرکہ کار زار میں نماز کی ادائیگی: ﴿وَاِذَا كُنْتَ فِيْهِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوةَ فَلْتَقُمْ طَاۗىِٕفَةٌ مِّنْھُمْ مَّعَكَ وَلْيَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ ۣفَاِذَا سَجَدُوْا فَلْيَكُوْنُوْا مِنْ وَّرَاۗىِٕكُمْ ۠ وَلْتَاْتِ طَاۗىِٕفَةٌ اُخْرٰى لَمْ يُصَلُّوْا فَلْيُصَلُّوْا مَعَكَ وَلْيَاْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَاَسْلِحَتَھُمْ ۚ ﴾(۴:۱۰۲) (اور اے پیغمبرا! جب تم ان مجاہدین کے لشکر میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمہارے ساتھ مسلح ہوکر کھڑی رہے۔ جب وہ سجدہ ادا کرچکیں تو پرے ہوجائیں۔ پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی، ان کی جگہ آجائے اور ہوشیار اور مسلح ہوکر تمہارے ساتھ نماز ادا کرے۔) جنگ کے دوران نماز صرف دو رکعت ہوتی ہے۔ (یعنی قصر اس کی ادائیگی کی صورت): (۱) آدھی فوج امام کے پیچھے ایک رکعت پڑھ کر مقابلے کو چلی جائے۔ مگر ہتھیار نہ اتارے۔ (۲) بقایا آدھی فوج امام کے پیچھے ایک رکعت پڑھ لے۔ (۳) اب امام کی دو رکعت پوری ہوگئیں۔ اور فوج کی ایک ایک بقایا ایک رکعت وہ خود اکیلے اکیلے حسب موقعہ پڑھ لیں۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |