تشریف لے گئے۔گویا اب مسلمان فوج کا مرکز و محور یہ مقام تھا۔یہیں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکستہ دل اور بد حواس فوج کو پکار پکار کر بلایا اور بکھری ہوئی فوج پھر جمع ہوگئی۔اور مسلمان شکست سے بچ گئے۔ (۴) اقدام: معرکہ کار زار میں اقدام کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب فتح و شکست کا کوئی فیصلہ نہ ہو رہا ہو تو کوئی ایک فوج پوری قوت سے دشمن کے قلب پر حملہ کر کے اسے پسپائی پر مجبور کر دے۔آپ نے جنگ احد کے موقع پر یہی تدبیر استعمال کی اور کفارِ قریش فتح و شکست کا فیصلہ ہوئے بغیر واپس چلے گئے تھے۔چنانچہ راستہ میں ابو سفیان سپہ سالار قریش کو یہ خیال آیا کہ کام تو ادھورا رہ گیا ۔واپس مڑ کر حملہ کرناچاہیے ادھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسا ہی خیال آیا۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے تعاقب کا فیصلہ کر لیا ‘اللہ تعالیٰ نے نہایت وضاحت سے ارشاد فرمایا کہ :۔ ﴿ وَلَا تَهِنُوْا فِي ابْتِغَاۗءِ الْقَوْمِ ۭ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ يَاْ لَمُوْنَ كَمَا تَاْ لَمُوْنَ ۚ وَتَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا يَرْجُوْنَ ۭ ﴾ (۴:۱۰۴) (اور دشمن کا پیچھا کرنے میں کمزوری نہ دکھا ؤ ۔اگر تمہیں دکھ پہنچا ہے تو انہیں بھی تو دکھ پہنچا ہے جیسے تمہیں پہنچا ہے پھر تم اللہ تعالیٰ سے ایسی امیدیں بھی (جنت و انعام) رکھتے ہو وجو وہ نہیں رکھتے۔) چنانچہ دوسرے دن آپ زخموں سے چو ر ستر صحابہ کی معیت[1] میں تعاقب کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔اور مدینہ سے آٹھ میل دور ایک مقام حمراء الاسد پر جا کر ڈیرہ ڈالا۔ اور تین دن قیام فرمایا ۔ اس تعاقبی سفر کو غزوہ حمراء الاسد کا نام دیا جاتا ہے۔حالانکہ یہاں قطعاً جنگ نہیں ہوئی۔ہوا یہ تھا کہ ابو سفیان کا لشکر روحا کے مقام پر پڑا ؤ ڈالے مسلمانوں پر مڑ کر حملہ کر کے سارا قصہّ پاک کرنے کی تیاری کررہا تھا۔انہیں ایک شخص معبد خزاعی ملا۔جو ابھی تک مسلمان نہیں ہو اتھا لیکن مسلمانوں کاخیر خواہ ضرور تھا۔اس سے ابو سفیان نے مسلمانوں کی کیفیت پوچھی تو کہنے لگا کہ ’’محمد اایک بہت بھاری لشکر لے کرتمہاری تلاش میں چڑھے آرہے ہیں۔اب ان میں وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں۔جو میدانِ جنگ میں موجود نہ تھے۔اور انہیں اس موقع کے ضائع ہو جانے کا بہت افسوس ہے۔‘‘ (طبری ج۱ غزوہ احد) |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |