Maktaba Wahhabi

244 - 268
مجبور کیا ہوگا۔ ایک اور مقام پر اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے:۔ ﴿ وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ ﴾ (۹:۶) (اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کلام اللہ سن لے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو۔) غور فرمایئے کہ تلوار یا دبا ؤ کے استعمال کا اس سے بہتر اور کون سا موقع ہو سکتا ہے ۔ جب ایک مشرک کسی مسلمان کی پناہ میں آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ اسے مجبور کرو یہاں تک اسلام لے آئے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اسلام کی تبلیغ پورے طور پر کر دو۔ مانے نہ مانے یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ پھر اگر وہ نہیں مانتا تو بھی تمہیں اس پر زیادتی کرنے کا کو ئی حق نہیں۔ اس کے بجائے تمہیں یہ چاہیے کہ ایسی صورت میں اسے کسی محفوظ مقام پر پہنچا دو۔ یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا غلام اسبق ایک عیسائی تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ کی بڑی خواہش تھی کہ وہ مسلمان ہو جائے۔ کیونکہ آدمی سمجھ دار اور ہوشیار تھا۔ آپ نے اسے یہ بھی کہا کہ اگر تم مسلمان ہو جا ؤ ہم مسلمانوں کے کام میں تم سے مدد لیں گے۔ یہ واضح اشارہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اچھا منصب عطا کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب اس پر اسلام پیش فرماتے تو وہ انکار کر دیتا اور آپ لا اکراہ فی الدین کہہ کر چپ ہو جاتے[1]۔ (۲) عقل کی کسوٹی پر: عقلی اعتبار سے یہ مفروضہ اس لیے غلط ہے۔ کہ تلوار کے زور سے کسی سے کوئی بات منوائی نہیں جا سکتی اور اگر بجبر واکراہ کوئی شخص ایک بات مان بھی جائے تو اسے اس بات پر قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمان ہوئے ۔ وہ دل جان سے اسلام کے فدائی اور شیدائی بن گئے۔ بلاشبہ کچھ لوگ مرتد بھی ہوئے۔ لیکن ان کا شمار ایک فی ہزار بھی نہیں۔ اور یہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر تلوار کے ذریعہ کوئی بات منوائی جا سکتی ہے۔ تو قریش مکہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں سے اپنی بات کیوں نہ منوا لی۔ جبکہ انہوں نے اپنی ایڑی چوٹی کا زور بھی صرف کر لیا تھا یا
Flag Counter