Maktaba Wahhabi

259 - 268
لہٰذا اسلام نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک دارالالسلام جہاں اسلامی حکومت قائم ہو۔ اور دوسرے دارالحرب۔ جہاں غیر مسلم حکومت ہو۔ آسان الفاظ میں یوں کہیے کہ ایک حصہ عالم اسلام ہے۔ اور دوسرا عالم جنگ۔ دارالاسلام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دارالحرب یا غیر مسلموں سے برسرپیکار رہ کر انہیں دارالاسلام میں شامل کرتا چلا جائے۔ یہ ہے ان عقلی اور نقلی دلائل کا خلاصہ جن سے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ اسلام کوئی امن پسند یا صلح جو مذہب نہیں بلکہ اپنے مزاج کے لحاظ سے ہر وقت برسرِ پیکار رہنا چاہتا ہے۔ پیشتر اس کے کہ اس اعتراض کا مختلف پہلو ؤ ں سے جائزہ لیا جائے مندرجہ ذیل دو باتوں کی وضاحت ضروری ہے : (۱) مشرکین اور اہل کتاب کا فرق: جیسا کہ پہلے وضاحت کی جا چکی ہے کہ اہل کتاب کے سامنے تین شرطیں پیش کی جاتی ہیں۔ (۱) سب سے پہلی یہ کہ وہ اسلام لائیں۔ اگر یہ نامنظور ہو تو وہ (۲) اطاعت گزار بن کر دارالاسلام میں رہیں اور جزیہ یا اس کی متبادل کوئی صورت قبول کریں۔ اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر (۳) جنگ کے لیے تیا ر ہوجائیں۔ لیکن مشرکین کے لیے اطاعت گزار بن کر رہنے کی بھی کم از کم حجاز میں گنجائش نہیں۔ ان پر تین ہی شرائط پیش کی جاتی ہیں۔ جیسا کہ سور ۂ توبہ کے آغاز میں مذکورہے یعنی (۱) اسلام قبول کرلیں اگر یہ منظور نہ ہو تو (۲) دارالاسلام چھوڑ کر چلے جائیں اور اگر یہ بھی منظور نہ ہو تو پھر (۳) جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ گویا ان کے لیے شرط نمبر ۲ اطاعت گزار بن کر رہنے کی بجائے حجاز چھوڑ کر چلے جانے کی ہے۔ مشرک کی عام تعریف یہ ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نازل شدہ کسی کتاب کا قائل نہ ہو۔ اور خدا کے متعلق واضح عقیدہ نہ رکھتا ہو۔ اس وضاحت سے یہ بات صاف ہو گئی کہ اسلام کی نظر میں تمام غیر مسلم ایک سطح پر نہیں۔ وہ اہل کتاب سے نسبتاً نرم رویہ اختیار کرتا ہے۔ لیکن مشرکین
Flag Counter