Maktaba Wahhabi

260 - 268
کے معاملہ میں سخت ہے۔ مندرجہ بالا دونوں آیات (جو کہ ایک ہی طویل آیت کے ٹکڑے ہیں) مشرکین سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور اس سختی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام ایک تحریک ہے۔ جو فتنہ کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اور اس کی نظر میں چونکہ سب سے بڑا فتنہ شرک ہے لہٰذا شرک کو ختم کرنا اس کا اولین مقصد ہے۔ گویا شرک کی موجودگی ہی جنگ کے لیے آئینی دستاویز ہوتی ہے۔ (۲) اقامت پذیری: بلحاظ تو طن دارالاسلام کی تین اقسام ہیں: (۱) حرمین یعنی حرم مکہ اور حرم مدینہ۔ ان مقامات میں صرف مسلمان ہی رہ سکتے۔ اہل کتاب یا مشرک یہاں اقامت اختیار نہیں کر سکتے۔ (۲) جزیرہ العرب یا حجاز۔ اس میں اہل کتاب معاہد کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔ جب تک کہ وہ اپنے عہد پر قائم رہیں۔ ہاں اگر بغاوت یا جنگ کریں تو انہیں دارالاسلام کے کسی دوسرے مقام میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن مشرکین کو اس خطہ میں برداشت نہیں کیا گیا۔ (۳) باقی دارالاسلام میں اہل کتاب تو اطاعت گزار بن کر پوری آزادی سے رہ سکتے ہیں۔ لیکن مشرکین کو گواراہونے کی حد تک براداشت کیا گیا ہے کہ وہ جزیہ دے کر اس علاقہ میں رہ سکتے ہیں۔ (اسلام کا قانون جنگ و صلح ص ۱۵۸) مشرکین پر سختی کی وجہ یہ تھی۔ کہ یہ لوگ ہر وقت اسلام پر کسی آفت کے پڑنے اور اندریں صورت بد عہدی کے منتظر رہتے تھے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خود سور ۂ توبہ میں اعلان کرکے ان کو چار ماہ سوچنے کی اجازت دی اور ان سے طے شدہ معاہدات کو کا لعدم قرار دے دیا۔ اگر یہ اقدام نہ کیا جاتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اٹھنے والا ارتداد کا فتنہ شاید دس گنا زیادہ طاقت سے ابھرتا۔ اور اسلام کی تاریخ بھی کوئی اور ہی رنگ اختیار کرتی۔ ان تصریحات کے بعد اب ہم اصل اعتراض کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ جس کا پہلا حصہ ہے کہ اسلام میں جوجنگ جو قبائلی داخل ہوئے تھے۔ اسلام نے صرف ان کا رخ بیرونی دنیا کی طرف پھیر دیا تھا۔ لہٰذا ان کی جنگجو فطرت میں کوئی فرق نہ آیا۔ یہ اعتراض کئی وجوہ سے غلط
Flag Counter