Maktaba Wahhabi

203 - 268
(ا) متصادم قوانین (۱)جنگ کے اغراض ومقاصد: ہم بتا چکے ہیں کہ یورپ میں ضوابط جنگ کی تدوین کا آغاز گروٹیوس کی مشہور کتاب (DEJURE BALLIAC PACIS)کی تصنیف سے ہوا تھا۔ اس کتاب میں مصنف نے جنگ کے جائز وناجائز مقاصد میں امتیاز پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن عہد جدید کے بین الاقوامی قانون نے اس سوال کو قطعاً خارج ازبحث قرار دیا ہے۔موجودہ دور میں مندرجہ ذیل مقاصد کو عملاً جنگ کے آغاز کے لیے جائز مقاصد سمجھا جاتا ہے۔ (۱) اپنی تجارت کو فروغ دینے کے لیے دنیا کی ثروت کا اجارہ حاصل کرنا۔ (۲) اگر کوئی حریف تجارت وصنعت کے میدان میں آگے بڑھ رہا ہو تو اس کا سر کچل دینا۔ (۳) اپنے دور دراز کے مقبوضات کے راستہ میں جو ممالک واقع ہوں انہیں اپنے زیر اثر رکھنا۔ (۴) ملکوں اور سلطنتوں کے حصّے بخرے کرنا اور کمزور قوموں کو اپنا غلام بنانا۔ (۵) اگر کسی قوم سے دشمنی ہوجائے، خواہ کسی وجہ سے ہو تو اسے مٹا دینا یا کم از کم اس کا زور توڑ دینا۔ اس کی مثال حالیہ عراق امریکہ جنگ ہے۔ اس جنگ کے بڑے مقاصد جو سامنے آئے ہیں اول تو امریکہ خلیج کی ریاستوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے تاکہ تیل کے تمام کنووں پر قبضہ کر سکے اور عرب ممالک میں ہر طرح اپنی من مانی کر سکے۔ اور دوسرا مقصد اسرائیل کے ناپا ک پودے کو تناور درخت بنانا ہے۔ یہودی اقوام دولت مند ہونے کے باوجود افرادی قوت کی قلت کا شکار ہے۔ پہلے پہل برطانیہ کے تعاون سے یہ ریاست وجود میں آئی۔ پھر امریکہ اس کا دست بازو بن گیا اور آج یہ عراق امریکہ جنگ بھی اسرائیل کو وسیع تر بنانے کے لیے لڑی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ تیسرا اور سب سے بڑا مقصد مسلمانوں کے مقدس مقامات حرمین شریفین پر ناجائز قبضہ کرنا ہے۔ امریکہ خلیج کی ان پانچ ریاستوں عراق‘ کویت‘ یمن‘ قطر اور سعودی عرب کو گیارہ ریاستوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے۔ بلکہ ان کے امریکہ نواز حکمرانوں کے نام بھی سوچ رکھے
Flag Counter