کے نزدیک جانا اور عمارتوں کو نہ ڈھانا۔) مگر جب یہ چیزیں کسی فوجی ضرورت میں رکاوٹ بن رہی ہوں ۔ تو ان کو دُور کرنا جائز ہے۔ جیسا کہ بنو نضیر کے محاصرہ کے وقت مسلمانوں کو یہود کی چند کھجوروں کا کاٹنا پڑا تھا۔ مسلمان اس سلسلہ میں متردد تھے کہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَاۗىِٕمَةً عَلٰٓي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ﴾ (۵۹/۵) (مسلمانو! کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا ان کی جڑوں پر قائم رکھے تو یہ اللہ کے حکم سے تھا۔) اور مفسرین نے یہ بھی تصریح کی ہے۔ کہ لینہ کھجور نکمی قسم کی کھجور تھی۔ جس کے درخت کاٹے گئے تھے۔ اچھی قسم مثلاً ’’عجوہ اور برنی کے درختوں کو کاٹنے سے احتراز کیا گیا تھا۔ (فتح الباری ج ۷ص ۲۶۶) (۱۲)صبر وثبات اور ذکر الٰہی: اور سب سے ضروری بات یہ ہے کہ مسلمان مادی مسائل سے بھرپور استفادہ کرنے کے بعد بھی اس کا انجام اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے میدان جنگ میں ثابت قدمی‘ الٰہی نصرت کا طلب گار رہتا ہے۔ارشاد باری ہے: ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوْا وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ 45ۚ﴾(۸/۴۵) (مسلمانو! جب تمہاری کسی گروہ سے مڈبھیڑ ہوجائے تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم کامیاب ہوجا ؤ ۔) ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ مومنوں کی صفت یہ بیان فرماتے ہیں: ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوْا فِيْكُمْ غِلْظَةً ۭ ﴾ (۹/۱۲۳) (اے ایمان والو ! اپنے نزدیک والے کافروں سے لڑو اور چاہیے کہ وہ تم میں سختی محسوس کریں۔) گویا کفار سے جنگ کے وقت صبر وثبات کے یہ معنی ہیں کہ ان پر تابڑ توڑ حملے کیے جائیں۔ وہ مسلمانوں میں کسی قسم کی کمزوری محسوس نہ کریں۔ اور یہ حالت اس وقت تک قائم رہنی چاہیے جب تک کہ فتح حاصل نہ ہوجائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان جنگ میں خطبہ جو دیا تھا اس کے الفاظ یہ ہیں: |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |