سپہ سالار کے درمیان انس و محبت اور عزت و احترام بھی موجود تھا۔ صحابہ کرام ث کی اطاعت گزاری کا یہ حال تھا کہ لشکر قریش اُحد کے میدان سے کام کو ناتمام چھوڑ کر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ ث کو ان کے تعاقب کا حکم دیا۔ اس جنگ میں ستر ممتاز صحابہ شہید ہو چکے تھے۔ زخمیوں کی تعداد کافی تھی۔ مدینہ میں گھر گھر صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی۔ فوج جنگ کی تکان زخموں کی تکلیف اور ذہنی طور پر سخت پریشان تھی۔ اس حال میں جب آپ نے حکم دیا تو ستر صحابہ کرام ثاس کے لیے تیار ہوگئے۔ (بخاری، کتاب المغازی، غزوہ احد) اب سکندر اعظم کی بات سنیے۔ وہ یلغار کرتا ہوا جب ہندوستان پہنچا تو سندھ کے راجہ پورس پر فتح پانے کے بعد وہ آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک مزید ڈیڑھ ماہ میں راستہ کے علاقے فتح کرتا دریائے بیاس تک پہنچ گیا۔ وہ آگے بھی بڑھنے کا مصم ارادہ رکھتاتھا لیکن اس کی فوج نے آگے بڑھنے سے انکار کردیا۔ اس نے فوج کی منت سماجت کی لیکن وہ نہیں مانی۔ آخر اس نے فو ج کو اس بات کا بھی لالچ دیاکہ وہ ایشیا سے حاصل شدہ دولت سب فوج میں تقسیم کر دے گا۔ لیکن فوج نے پھر بھی اپنے سپہ سالار کی اطاعت نہیں کی۔فوج فاتحانہ انداز میں آگے بڑھ رہی تھی۔ دل مسرور و شادمان تھے، بے شمار دولت کا لالچ بھی دیا جا رہا تھا۔ ان تمام باتوں کے باوجود فوج کا انکار اس بات کی واضح دلیل ہے کہ سکندر کو صرف اپنی فتوحات سے دلچسپی تھی فوج سے ہمدردی نہ تھی۔ فوج کو اپنے گھروں سے نکلے ہوئے اور بال بچوں سے علیحدہ ہوئے مسلسل آٹھ سال کا عرصہ گزر چکا تھا۔ سکندر چاہتا تو پیچھے سے کمک بھی منگوا سکتا تھا، راستے میں نئی فوج بھی منگوا سکتا تھا، راستے میں بھی فوج تیار کرسکتا تھا۔ اگر وہ سپاہیوں کے احساسات کا خیال رکھتا اور ان میں سے نصف افواج کو ہی واپس وطن بھیج دیتا تو اس طرح اُسے مایوسی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔ با لآخر سکندر کو فو ج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک کو بری راستے سے اور دوسرے کو بحری راستے سے وطن واپس پہنچنے کا حکم دے دیا۔ خود بحری راستے جب عراق پہنچا تو بابل کے مقام پر بخار کے عارضہ سے عین جوانی کے عالم میں مر گیا۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ اس بخار کا سبب بھی اس کے آگے بڑھنے کی ہوس کی ناکامی اور فوجوں کا منہ توڑ جواب ہی تھا۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |