Maktaba Wahhabi

167 - 268
نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ کیونکہ یہ جھڑپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت بغیر ہوئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ چند آدمی تجارت کا مال لیے شام سے واپس آرہے تھے۔ اس دستہ نے ان پر حملہ کردیا۔ دشمن کا ایک آدمی مرگیا اور دو گرفتار ہوئے اور مال بھی ہاتھ آیا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے واپس مدینہ آکر واقعہ بیان کیا اور مال غنیمت بھی پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت برہم ہوئے اور فرمایا:۔ «صَنَعَتُمْ مَالَمْ تُؤْمَرُوْا بِه وَقَاتَلْتُمْ فِیْ الشَّهْرِالْحَرَامِ وَلَمْ تُؤْمَرُوْا بِقَتَالٍ»[1] (تم نے وہ کام کیا جس کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا اور ماہ حرام میں تم لڑے اس میں لڑنے کا حکم نہ تھا۔) قریش نے اس لڑائی کو خوب اُچھالا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے اصحاب ث نے حرمت کے مہینے کو حلال کردیا ۔ جس کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے تفصیل سے دیا: ﴿وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ اِنِ اسْتَطَاعُوْا﴾ (۲:۲۱۷)[2] وحی الٰہی کی رُو سے معاملہ میں کچھ نرمی پیدا ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت قبول کرلیا۔ قیدیوں کو چھوڑ دیا اور مقتولین کا خون بہا اداکردیا ۔ دورانِ جنگ اگر رسد میں کمی واقع ہوجائے تو عموماً افواج کو یہ حق دیا جاتا ہے۔ کہ وہ ادھر اُدھر سے لوٹ مار کرکے خوارک کا سامان حاصل کرلیں۔ اور اس میں کچھ قباحت نہیں سمجھی جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی حاصل کردہ خوراک کو بھی لوٹ مار اور حرام قرار دیا۔ ابو دا ؤ د میں ایک انصاری سے روایت ہے کہ ہم ایک دفعہ سفر پرگئے ۔ خوراک کی سخت قلت تھی۔ اتفاق سے بکریوں کا ایک ریوڑ نظر آیا تو سب اس پر ٹوٹ پڑے اور بکریاں لُوٹ لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو دیکھا کہ کہ ہنڈیوں میں گوشت پک رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہنڈیاں اُلٹ دیں۔ پھر فرمایا۔’’ایسی لوٹ مار کا گوشت مردار کے برابر ہے۔[3] ‘‘ (۲)اموال غنیمت سے کچھ چُھپا لینا بدترین خیانت ہے: انفرادی طور پر لوٹا ہوا مال سارے کا سارا امیر کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ یامقررہ
Flag Counter