Maktaba Wahhabi

239 - 268
ہے۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا ایک غلام کی امان حجت نہیں ہو سکتی۔ شہر والے کہتے تھے کہ ہم آزاد غلام نہیں جانتے۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا گیا۔ آپ ص نے جواب میں لکھا کہ ــ’’ مسلمانوں کا غلام بھی مسلمان ہے اور جس کو اس نے امان دی تمام مسلمان امان دے چکے۔‘‘[1] دھوکہ کی امان: عراق و ایران کی جنگوں کے سلسلہ میں غارق کے مقام پر ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ اور جاپان سالارِ لشکر کی فوج کا مقابلہ ہوا۔ جاپان شکست کھا کر گرفتار ہو گیا۔ مگر جس مجاہد نے اسے گرفتار کیا تھا وہ اسے پہچانتا نہیں تھا۔ جاپان نے اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عوض دونو جوان غلام دینے کا وعدہ کر کے امان لے لی۔ اتنے میں کسی دوسرے نے اُسے پہچان لیا اور پکڑ کر سردار لشکر کے پاس لے گئے۔ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایسے دشمن کا چھوڑ دینا اگرچہ ہمارے حق میں بہت مضر ثابت ہو گا مگر ایک مسلمان اسے امان دے چکا ہے۔ اس لیے بد عہدی جائز نہیں۔ چنانچہ وعدہ کے مطابق اسے رہا کردیا گیا[2]۔ (۱۳) فراست یا دور اندیشی: حالات جنگ (حرب۔WAR) یا میدانِ جنگ (قتال۔BATTLE ) میں بعض دفعہ ایسے حالات پیش آجاتے تھے کہ جرنیل اپنی کسی مجبوری یا مصلحت کی وجہ سے صلح پر آمادہ ہوتا ہے ۔ لیکن دشمن ایسی شرائط پیش کر دیتا ہے۔ جو بظاہر توہین آمیز اور ناگوار ہوتی ہیں۔ اس وقت اپنی مصلحتوں اور شرائط کے نتائج کا صحیح موازنہ کرکے مناسب اقدام کرنا جرنیل کی عظمت کی بہت بڑی دلیل ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ صلح حدیبیہ کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ناراضگی کے باوجود کفار کی کڑی اور توہین آمیز شرائط کو کیوں قبول کیا اور اس کے نتائج کیسے شاندار رہے۔ سکندر اعظم اور چنگیز خان کو ایساکوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ان کی تمام تر زندگی مار دھاڑ
Flag Counter