Maktaba Wahhabi

36 - 268
ان میں فتنہ و فساد کی کثرت کی تیسری وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ خدائے واحد کو بھول کر بت پرست بن گئے تھے۔ ہر قبیلے کا جدا جدا بت تھا۔ جو اللہ کے ہاں سفارشی سمجھا جاتا تھا۔ اس عقید ۂ سفارش نے ان کو عصیان و سرکشی کی زندگی پر دلیر بنا دیا تھا۔ ان کے درمیان چوتھی وجہ مخاصمت ’’عورت کی ذات تھی‘‘۔ شراب اور عشق ان کی گھٹی میں پڑا ہوا تھا ۔ جلسوں میں عورتوں سے عشق کا برملا اظہار کیا جاتا- ان کی عصمت سے کھیلنا ان کا دل چسپ مشغلہ تھا- جب کسی قبیلہ کی عورت پر ہاتھ ڈالا جاتا یا وہ فریاد کرتی تو یہ لڑائی مسلسل قبائلی جنگ میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ پھر ان لوگوں کا جوش انتقام اس درجہ بڑھا ہوا تھا کہ محض حریف کو قتل کر دینا ان کے جوشِ انتقام کو تسکین نہیں بخشتا تھا۔ وہ قتل کے بعد لاش کے ہاتھ، ناک، کان وغیرہ کاٹ کر اس کو بدشکل بنا دیتے تھے۔ کبھی اس کا پیٹ چاک کر کے اس کا کلیجہ دانتوں میں چباتے اور کبھی اس کی کھوپری میںشراب پینے کی نذر پوری کرتے تھے۔ قریش دشمنی کی وجوہات: یہ تھی اس قوم کی حالت، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ سرانجا م دے کر فتنہ و فساد اور ظلم وجور کا خاتمہ کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کا آغاز عقیدہ توحید اور یوم آخرت پر ایمان اور پرسش اعمال پر استوار کیا۔ اور مکی زندگی کے مسلسل ۱۳ سال انفرادی اور پرامن جہاد پر صرف کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت نے مکہ کے بت پرستوںکو اتنا مشتعل کر دیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے لاگو بن گئے۔ علاوہ ازیں اسلام نسلی تفاخر کی جڑ کاٹ کر معاشرتی مساوات کا سبق دیتا تھا۔ اور قریش مکہ جو اپنے آپ کو ہر لحاظ سے ’’ایک برتر مخلوق‘‘ سمجھتے تھے۔ انہیں یہ تعلیم کسی صورت میں قبول کرنا گوارا نہ تھی۔ پھر اسلام کمزور کی حمایت اور ظلم سے نفرت پر زور دیتا تھا۔ لیکن ان کا قبائلی نظام صرف اس بات کا تقاضا کرتا تھا کہ ہر صورت اپنے ہی قبیلہ کی حمایت کی جائے۔ علاوہ ازیں اسلام لوٹ مار کے مال کو حرام قرار دیتا تھا۔ لیکن بیشتر قبائل کا ذریعہ معاش ہی یہی پیشہ تھا۔ ان چند در چند وجوہات کے پیش نظر نہ صرف قریش مکہ بلکہ اکثر قبائل عرب اسلام بلکہ پیغمبر اسلام کے بھی دشمن بن گئے۔
Flag Counter