کے واقعات میں سے کسی واقعے کے رونما ہونے یا نہ ہونے پر اسلام کے دینیاتی نظام کا ہرگز مدار نہیں اور بالفرض ان میں سے کوئی ایک واقعہ بھی رونما نہ ہو تو اسلام کے کسی اعتقادی نظام میں کسی طرح کا کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔‘‘ یہ بات ہماری سمجھ سے بالا ہے کہ عمار صاحب نے اس عقیدۂ نزولِ مسیح کے بارے میں پہلے تو یہ فرمایا کہ ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بہت سی پیش گوئیوں کی طرح اس پیش گوئی کے سچا ہونے پر بھی یقین رکھنا آپ پر ایمان رکھنے کا تقاضا ہے۔‘‘ اور اب آپ ایک تو یہ فرما رہے ہیں کہ یہ سرے سے ایمانیات اور عقیدے کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ دوسرے، بالفرض اگر آمدِ ثانی کا یہ واقعہ رونما ہی نہیں ہوتا تو اس سے اسلام کے اعتقادی نظام میں کسی طرح کا کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ یہ دونوں باتیں بیک وقت کس طرح صحیح ہوسکتی ہیں؟ کیا ان میں باہم تضاد نہیں؟ جس چیز پر یقین رکھنا نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کا تقاضا ہو، کیا وہ چیز ایسی مشکوک بھی ہوسکتی ہے کہ اس کا وقوع اور عدمِ وقوع برابر ہو؟ پھر وہ ایمان والی بات تو نہ ہوئی، وہ تو نجومی کی اٹکل پچو پیش گوئی ہوئی۔ اور اگر وہ ایمان والی بات ہے (جیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے) تو وہ نبی کی پیش گوئی ہوئی اور نبی کی پیش گوئی کی بنیاد، مستقبل کا علم نہیں، کیوں کہ وہ تو غیب ہے اور نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب بھی نہیں تھے، پھر اس پیش گوئی کی بنیاد وحیِ الٰہی کے سوا کوئی اور ہو سکتی ہے؟ وہ بتلائیں وہ کیا ہے؟ اگر وحیِ الٰہی ہی ہے اور یقینا وحی ہے تو پھر وقوع اور عدمِ وقوع، دونوں امکان کس طرح صحیح ہوسکتے ہیں؟ اس کا وقوع اور ظہور تو یقینی ہے اور اس اعتبار سے اس کی صداقت پر یقین رکھنا ایمانیات اور عقیدے کا جزو کیوں نہیں ہوگا؟ |
Book Name | فتنۂ غامدیت، ایک تحقیقی وتنقیدی جائزہ |
Writer | حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ |
Publisher | دار أبي الطیب للنشر والتوزیع |
Publish Year | جولائی 2015ء |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 358 |
Introduction |