خلافت راشدہ کے عہد میں کئی بار ایسا ہوا۔ کہ خلیفہ وقت کو مدعی یا مدعا علیہ کی صورت میں عدالت میں پیش ہونا پڑا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اکثر فیصلہ ان کے خلاف صادر ہوا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے انتخاب کے بعد خطبہ جو ارشاد فرمایا۔ اس کے یہ الفاظ قابل غورہیں ۔ ـ ’’تمہارا کمزور میری نگاہوں میں قوی ہے۔ اور قوی میری نگاہوں میں کمزور ہے‘‘۔ جس کا مطلب واضح الفاظ میں یہ تھا۔ کہ تمام قانونی طاقتیں کمزور کے ساتھ ہیں جب تک کہ اسے ظالم سے اس کا حق نہ دلوا دوں اور طاقتور کو قانون کی طاقت سے ظلم سے روکنے کی پوری کوشش کروں گا۔ چنانچہ ان خلفاء نے ایسا نظام عدالت رائج کیا جہاں مفت اور بلا تاخیر انصاف حاصل ہوتا تھا۔ ’’دور فاروقی میں شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ بن الجراح نے حضرت معاذ بن جبل کو رومیوں کے پاس سفیر بنا کر بھیجا۔ شہنشاہ کا دربار اور اس کی شان و شوکت دیکھ کر آپ نے فرمایا:۔‘‘ ’’تم کو اس پر ناز ہے کہ تم ایسے شہنشاہ کی رعایا ہو جس کو تمہاری جان ومال کا اختیار ہے لیکن ہم نے جس کواپنا بادشاہ بنا رکھا ہے وہ کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ اگر وہ زنا کرے تو اس کو درے لگائے جائیں گے۔ چوری کرے تو ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں، وہ پردے میں نہیں بیٹھتا۔ اپنے آپ کو ہم سے بڑا نہیں سمجھتا۔ مال و دولت میں اس کو ترجیح نہیں‘‘۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اپنے دور خلافت میں ان کی اپنی زرہ چوری ہو گئی۔ جو آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھ لی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ نہیں کیا کہ یہودی سے اپنی زرہ چھین کر اسے کیفر کردار کو پہنچا دیتے۔ بلکہ قاضی شریح کی عدالت میں اس یہودی پر دعویٰ دائر کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گواہ ان کے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ اور ان کے غلام تھے۔ قاضی شریح نے آپ کا مقدمہ صرف اس بنا پر خارج کر دیا کہ یہ شہادتیں اسلامی ضابطہ عدل کے تقاضے پورے نہیں کرتیں۔ بیٹے کی شہادت باپ کے حق میں اور غلام کی شہادت اپنے آقا کے حق میں ناقابل قبول ہے۔ حالانکہ عدالت کو خوب معلوم تھا کہ مدعی اور گواہ سب عادل اور ثقہ ہیں لیکن عدل کا تقاضہ یہی تھا کہ مقدمہ خارج کردیا جائے۔ یہ صورت حال دیکھ کر یہودی نے زرہ بھی واپس کر دی اور خود بھی مسلمان ہو گیا۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |