ان تصریحات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام نہ تو کسی قوم کا دشمن ہے، نہ نسل کا اور نہ علاقہ یا ملک کا۔ اسے ان امور میں سے کسی سے بھی دلچسپی نہیں۔ اسے غرض ہے تو صرف دنیا سے فتنہ وفساد مٹانے سے اور اللہ تعالیٰ کا بول بالا کرنے سے یہ مقصد اگر بلا جنگ حاصل ہوجائے تو اسے جنگ کسی قیمت پر گوارہ نہیں۔ دستور تھا کہ اسلامی فوج کا سپہ سالار ارسال دعوت کے بعد تین دن تک انتظار کرتا۔ اگر اس مدت انتظار میں دشمن گفت وشنید پرآمادہ ہوتا تو اس کا انتظام کیا جاتا۔ گفت وشنید کا اکثر نتیجہ یہ نکلتا کہ لڑائی رُک جاتی۔ مثلاً شام وعراق میں مخالفوں نے چند شہر مسلمانوں کے حوالے کرکے صلح کرلی۔ لیکن بعض اوقات اختلاف فکرو رائے باقی رہتا تو اس صورت میں جنگ چھڑ جاتی۔ جنگ قادسیہ کے موقع پر رستم کی انتہائی کوشش تھی کہ لڑائی کچھ عرصہ کے لیے ملتوی کردی جائے۔ لیکن مسلمانوں کے نمائندہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے یہی تین شرائط پیش کیں اور ان میں کچھ بھی کمی پیشی نہ کی پہلی دونوں باتوں کو رستم اپنی شان کے خلاف سمجھتاتھا۔ لہذا چاہتا تھا کہ مسلمان ویسے ہی کچھ مال و دولت لے کر واپس چلے جائیں۔ جب مسلمانوں نے انہی شرائط پر اصرار کیا تو مایوس ہوکر کہنے لگا۔ ’’میرے اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا کوئی امکان نہیں رہا‘‘۔ چنانچہ قادسیہ کی جنگ ہوکر رہی جس میں رستم کو اور ایرانیوں کو فیصلہ کن شکست نصیب ہوئی۔ اسلام کی اصل غرض یہ ہے کہ لوگ علیٰ وجہ البصیرت اور برضا ورغبت اسلام قبول کرکے فتنہ وفساد سے رُک جائیں اور احکام الہٰی کے تحت امن وعافیت کی زندگی بسر کریں۔ جہاد سے درحقیقت یہی غرض ہوتی ہے۔ اسلام کو نہ جزیہ سے رغبت ہے، نہ اموالِ غنیمت سے یہ تو دوسری اور تیسری قسم کی چیزیں ہیں۔ جنگ خیبر اور دورِ نبوی میں پہلا غزوہ تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی علاقہ فتح کرکے اپنی ریاست میں شامل کیا۔ اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا عنایت فرمایا تو انہوں نے عرض کی۔ ’کیا یہود کو لڑ کر مسلمان بنا لیں؟ ارشاد ہوا کہ نرمی سے ان پر اسلام قبول کرو۔ اگر ایک شخص بھی تمہاری تبلیغ سے اسلام لے آئے تو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘۔ (بخاری ۔ کتاب المغازی ۔ باب غزوہ خیبر) (۳) اور اگر وہ جزیہ ادا کرنے پر، جو ان کی زیر دستی کی علامت کے طور پر ان سے وصول کیا جاتا ہے، بھی رضا مندنہ ہوں یا بالفاظ دیگر فتنہ وفساد کرنے پر مصر ہوں یا اسے روکنے کی |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |