رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کے اس پہلو پر یوں رقمطراز ہے: ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے منکسر المزاج تھے کہ اپنے معتقدین کے ساتھ کسی ایسے سلوک کے بالکل روادارنہ تھے۔ جو آپ کو ان سے ممتاز کردے۔ جس کام کو آپ کر سکتے تھے کبھی اپنے غلاموں سے بھی وہ کام نہ لیتے تھے۔ بارہا دیکھا گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سودا خرید رہے ہیں۔ اپنے کپڑوں میں خود پیوند لگا رہے ہیں بکری کا دودھ اپنے ہاتھ سے دھو رہے ہیں۔ در نبوی ہر ایک کے لیے اور ہر وقت کھلا رہتا ہے ۔ اور ہر شخص کی رسائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک بلا روک ٹوک ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیماروں کی عیادت کرتے اور ہر ایک کے ساتھ رحم و شفقت کا برتا ؤ کرتے۔ اگر کوئی سیاسی وجہ حائل نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلوک اور تواضع سے کبھی منہ نہ موڑتے‘‘۔ (سرور کونین ص ۲۶) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طرح کے سلوک کا یہ اثر تھا کہ یہ مقدس فوج اپنے عظیم سپہ سالار پر پروانہ وار جاں نثار کرتی تھی۔ غزوہ احد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومشرکین نے ہر طرف سے گھیر لیا تو مسلمانوں نے اپنے جسموں سے ڈھال کا کام لے کر انہیں روکا اور حتی الوسع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آنچ نہ آنے دی۔ عروہ بن مسعود ثقفی جو صلح حدیبیہ کے وقت قریش مکہ کی طرف سے سفیر بن کر آیا واپسی پر جا کر قریش مکہ سے صحابہ ث کی پروانہ وار شیفتگی کا نقشہ ان الفاظ میں پیش کرتا ہے: اے قریش! میں روم، ایران اور حبش کے بادشاہوں کے پاس بھی گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے کوئی بادشاہ ایسا نہیں دیکھا! جیسے محمد ا اپنی قوم میں ہیں۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو اس کے اصحاب فوراً لپکتے ہوئے حکم بجا لاتے ہیں۔ جب وہ وضو کرتے ہیں پانی نہیں گرنے دیتے اور اس کے لیے دوڑتے ہیں۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو اپنی آواز دھیمی کرلیتے ہیں اور ہمہ تن متوجہ ہوکر بات سنتے ہیں اور ادب وتعظیم کی وجہ سے نظر بھر کر ان کی طرف نہیں دیکھتے۔ محمد ا کے ساتھی کبھی اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔ لہذا تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ تم محمدا کی بات مان لو۔ اسی میں تمہارا فائدہ ہے‘‘۔ (بخاری ۔ کتاب الشروط۔ باب الشرط فی الجہاد للمصالحۃ) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواپنے صحابہ کرام ثسے جس قدر ہمدردی ، موانست اور محبت تھی ان کی شہادت اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں دی ہے: ﴿ لَقَدْ جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِيْزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيْصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ ١٢٨ ﴾(۹:۱۲۸) (تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آئے۔ تمہاری تکلیف ان پر گر انبار ہے ۔ |
Book Name | نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار |
Writer | مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ |
Publisher | مکتبہ السلام لاہور |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 268 |
Introduction | جہاد ایک عظیم ترین عمل ہے جس کی عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کم و بیش 27 غزوات کئے اور 50 سے زائد سریہبھیجے، ایک حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے افضل ترین عمل قرار دیا اور ایک حدیث میں فرمایا کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ اس کتاب میں مولانا عبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ نے جہاد کا صھیح مفہوم بیان کرتے ہوئے اس کی اقسام اور جہاد بالسیف کو بھی بیان کیا بلکہ جہاد پر کئے جانے والے اعتراضات و شبہات کو انتہائی مدلل انداز میں رفع کیا ، اس کے علاوہ دارلاسلام او ردار الحرب جیسی پچیدہ بحث کو خوش اسلوبی سے نکھارا گیا ہے ۔ کتاب کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جہادی پہلو کو نشانہ مشق بنانے والوں کو شرعی اورمنطقی دلائل سے شافی جواب دیا گیا ہے ۔اس کے علاوہ آپ کی عظیم شخصیت پر غیر جانبدار مغربی مفکرین کے اقوال بھی پیش کیے گئے ہیں جو کہ جہاد اور پیغمبر جہاد کے انتہا پسند ناقدین کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں ۔ |