Maktaba Wahhabi

83 - 268
ساتھ ہی یہ خطرہ بھی تھا کہ قریش مکہ اس قافلہ کی حفاظت کے لیے مسلح ہو کر موقع پر پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ ان ملی جلی کیفیات سے رمضان ۲ھ میں مسلمانوں کا لشکر اس قافلہ کی طرف بڑھا۔ادھر ابو سفیان کو خبر ہوگئی تو اس نے تیز رفتار قاصد مکہ بھیجا۔مکہ سے ہنگامی طور پر ایک ہزار پر مشتمل مسلح لشکر ابو جہل کی سرکردگی میں قافلہ کی حفاظت کے لیے نکل کھڑا ہوا۔اب ہوا یہ کہ ابو سفیان نے عام رستہ کو چھوڑ کر بحیرہ قلزم کے ساتھ والا راستہ اختیار کر لیا۔اور اس طرح بچتا بچاتا قافلہ لے کر بحفاظت مکہ پہنچ گیا۔قریشی لشکر بدر کے مقام پر پہنچ چکا تھا تو اسے بھی معلوم ہوگیا کہ ابو سفیان بخیریت مکہ پہنچ چکا ہے۔لہٰذا اکثر سرداروں نے یہ رائے دی کہ مقصد حاصل ہو چکا ہے۔لہٰذا اب جنگ نہ کرنی چاہیے۔مگر ابو جہل کے غرور اور ہٹ دھرمی نے کوئی پیش نہ جانے دی اور جنگ ہو کر رہی جس میں کفار کو عبرت انگیز شکست ہوئی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس تجارتی ناکہ بندی کے اور بھی چند ایک واقعات ملتے ہیں۔مندرجہ بالا تصریحات سے مقصود یہ ہے کہ غزو ۂ بدر کا پیش خیمہ بھی تجارتی ناکہ بندی تھا۔اور ایسی مہمیں بسا اوقات کامیاب ہی ثابت ہوئیں۔ ابتداء میں قریش نے اس خطرہ سے محفوظ رہنے کے لیے بحیر ۂ قلزم کے ساحل کے ساتھ کا متوازی راستہ اختیار کیا مگر ان پر چل کر ان کے منافع کی مقدار بہت کم ہوگئی اور سامانِ خوراک بڑی دقت سے اور گراں قیمت پر ملنے لگا۔اس طرح کی ناکہ بندی[1] سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مقصد تھے۔ایک یہ کہ دشمن معاشی لحاظ سے کمزور ہو جائے دوسرے وہ منافع جو فوری طور پر مصارف جنگ کی صورت میں مسلمانوں ہی پر استعمال ہونے والا تھا اس کا قصہ ہی ختم ہو جائے۔ تجارتی ناکہ بندی کو کامیاب بنانے کے لیے گہرے تدبر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اسی وقت کی جانی چاہیے جب انسان اس سے پیدا ہونے والے رد عمل کا مقابلہ کرنے کے لیے
Flag Counter