Maktaba Wahhabi

228 - 268
کی حد میں آچکے۔ ( ایضاً ص ۲۵۳) اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلامی نقطہ نگاہ سے کشور کشائی کو ئی اچھی بات نہیں۔ تو دَورِ نبوی کے آٹھ سالوں میں[1] دس لاکھ مربع میل کا وسیع رقبہ کیسے اسلام کے زیر نگین آگیا۔ پھر یہ وسعت دَورِ فاروقی میں پچیس لاکھ مربع میل تک کیونکر پہنچ گئی۔ جو پوری آباد دنیا کا چوتھائی حصہ بنتی ہے۔ تو اس سوال کا جواب ہم ایک عیسائی کی زبان سے پیش کرتے ہیں- کشور کشائی کی وجوہ: جب رومی شکست کھا کر دمشق اور حمص وغیرہ سے نکل کر انطاکیہ پہنچے تو ہرقل سے فریاد کی کہ عرب نے تمام علاقے کو پامال کر دیا۔ ہرقل نے ان میں سے چند ہوشیار اور معززآدمیوں کو دربار میں بلا کر پوچھا کہ’’ عرب تم سے زور میں‘ جمعیت میں اور سروسامان میں کم ہیں پھر تم ان کے مقابلے میں کیوں نہیں ٹھہر سکتے؟‘‘ اس پر سب نے ندامت سے سر جھکا لیا ۔ البتہ ایک تجربہ کار بڈھے نے عرض کی کہ’’عرب کے اخلاق ہمارے اخلاق سے بہت اچھے ہیں۔ وہ رات کو عبادت کرتے اور دن کو روزے رکھتے ہیں۔ کسی پر ظلم نہیں کرتے۔ آپس میں ایک دوسرے سے برابری کے ساتھ ملتے ہیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ شراب پیتے ہیں۔ بدکاریاں کرتے ہیں۔ اقرار کی پابندی نہیں کرتے۔اوروں پر ظلم کرتے ہیں۔ اس کا یہ اثر ہے کہ ان کے کام میں جوش اور استقلال پایا جاتا ہے اور ہمارا جو کام ہوتا ہے ہمت اور استقلال سے خالی ہوتا ہے۔ (الفاروق ص ۱۸۹) یہ تو اس بات کا جواب تھاکہ مسلمان وسائل کی کمی کے باوجود کیسے فتحیاب ہو جاتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھیے تو آپ کہ معلوم ہو گا کہ اسلام میں کچھ ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ کہ علاقے فتح نہ کرنے کے باوجود خو د بخود فتح ہوتے چلے جاتے ہیں: جب کوئی قوم یا ملک کسی دوسرے علاقہ کو فتح کرتا ہے تو فا تح اور مفتوح قوم میں امتیاز بدستور قائم رہتا ہے۔ مثلاً انگریز قوم نے اگر ہندوستان کو فتح کیا تو اہل ہند خواہ کتنا ہی اپنے آپ کو انگریزوں کے رنگ میں رنگ دیں۔ وہ انگریز کبھی نہیں بن سکتے۔ اورنہ ہی انہیں انگریزوں جتنے حقوق برطانیہ دے سکتا ہے ۔ یہی حال جرمن ، فرانس یا دوسری اقوام اور ان کے مقبوضات کا ہے۔ اس کے برعکس اسلام ایک تحریک ہے۔وہ کسی قوم یا ملک کے باشندوں کا نام نہیں ۔ اب دیکھئے کہ
Flag Counter