Maktaba Wahhabi

392 - 462
شروع کر دیے تھے، مگر ہمارے حضرت حافظ صاحب رحمہ اللہ نے اس خطرے کو بہت پہلے محسوس کر تے ہوئے ’’تنقید المسائل‘‘ میں اس پر مدلل تنقید کی اور مولانا مودودی مرحوم کے اکتشافات سے قوم کو متنبہ فرمایا۔ جزاہ اللّٰه أحسن الجزاء دل تو چاہتا ہے کہ اس سلسلے میں بھی حضرت مرحوم کے ارشادات کا خلاصہ پیش کر دیا جائے، مگر یہ عجالہ اس تفصیل کا متحمل نہیں۔ شائقین حضرات ’’تنقید المسائل‘‘ کی طرف مراجعت فرمائیں۔ البتہ تفسیری نوعیت کی بعض باتوں کا تذکرہ قارئین کی دلچسپی کے لیے ضروری اور مفید سمجھتا ہوں۔ سورۃ النساء میں ﴿لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ ﴾ [النساء: ۱۷۱] الآیۃ کے ضمن میں غلو کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امورِ دینیہ کی حدود مقرر فرما دی ہیں۔ ان سے تجاوز ثواب نہیں، بلکہ عتاب کا موجب ہے اور حدودِ مقررہ سے تجاوز کا نام غلو اور افراط ہے۔ یہ افراط اگر عقائد، معاملات، مقامات اور حالات میں ہو تو اسے غلو کہتے ہیں، علم میں ہو تو اسے تعمق کہتے ہیں، اگر اخلاق اور عبادات میں ہو تو اسے رہبانیت کہتے ہیں، اگر عادات میں ہو تو اسے تکلف کہتے ہیں، اگر طہارت و نجاست کے دور کرنے میں ہو تو اسے وساوس کہتے ہیں اور اگر اصول و فروع کے عدمِ تحفظ میں ہو تو اسے ظلم و سفاہت کہتے ہیں۔ سورۃ البقرۃ کی آیت: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً ﴾ [البقرۃ: ۲۰۸] کے تحت فرمایا کہ اس آیت میں مکمل اسلام کی تابعداری کا حکم ہے اور شیطان کی تابعداری میں جیسے پہلی گمراہ قومیں ﴿أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ﴾ [البقرۃ: ۸۵] کا طریقہ اختیار کر چکی تھیں۔ اس سے مجتنب رہنے کی تاکید ہے۔ اسلام کے ایک حصے کو اختیار کرنا اور دوسرے کو ترک کر دینا
Flag Counter