Maktaba Wahhabi

374 - 462
لیتے۔ تکیے کا سہارا لے کر دراز ہو جانے کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ دورانِ سبق میں اگر کوئی کج کلاہ آجاتا تو اس کی طرف التفات فرماتے اور نہ ’’قال: قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘ کے پیارے بول چھوڑ کر اس سے محوِ گفتگو ہی ہوتے، البتہ حاضر ہونے والا سلام کہتا تو جواب میں سنت کے مطابق وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ فرماتے، فارغ ہونے کے بعد مسکراتے ہوئے آنے والوں سے ملتے، خیریت پوچھتے اور آمد کا سبب دریافت فرماتے۔ افاداتِ شیخ رحمہ اللہ : اللہ تبارک وتعالیٰ کی بے پایاں رحمت کی بنا پر آپ بے پناہ حافظہ اور وسعتِ معلومات کے مالک تھے، جناب مولانا محمد اسحاق بھٹی نے بجا طور پر صحیح لکھا تھا: ’’آپ کا دماغ اور حافظہ ضرب المثل ہے۔ وسعتِ معلومات کا یہ عالم ہے کہ جب کسی مسئلے پر زبان کو حرکت دیتے ہیں تو اس سے متعلق تمام پہلو اور تمام عنوان خود بخود نکھرتے چلے جاتے ہیں اور اس کا کوئی گوشہ تشنۂ تحقیق نہیں رہنے پاتا۔ قدرت نے آپ کی زبان کو گنگ و جمن کی روانی دی ہے۔ اٹکاؤ یا ٹھہراؤ کہیں نام کو نہیں۔ گفتگو کی کوئی کڑی کہیں ٹوٹنے نہیں پاتی۔‘‘[1] قوتِ حفظ کے متعلق ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ کی ’’خصوصی اشاعت‘‘ (ج: ۳۸ شمارہ: ۱۔۲) میں حضرت رحمہ اللہ کے تلامذہ کی شہادتیں اور دیگر اہلِ علم کی آرا نقل ہو چکی ہیں۔ اس سلسلے میں حضرت مولانا محمد اشرف صاحب سندھو مرحوم کی شہادت بھی پڑھ لیجیے، لکھتے ہیں: ’’حضرت مولانا حافظ عبداللہ صاحب رحمہ اللہ امرتسری روپڑی کی یادداشت اور
Flag Counter