Maktaba Wahhabi

112 - 462
’’نسخۃ البرقانی‘‘ کا بحوالہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ذکر کیا ہے اور پھر اسی بنا پر اس کا راوی امام ابوبکر محمد بن احمد بن غالب المعروف بالبرقانی قرار دیا ہے۔ یہ محلِ نظر ہے۔ ممکن ہے شاہ صاحب کی بستان المحدثین کے قلمی نسخہ میں یوں ہی البرقانی ہو مگر اس کے مطبوعہ نسخہ ۱۹۱۵ء مجتبائی دہلی اور دیگر مطبوعہ نسخوں میں ’’التوقانی‘‘ ہے، مگر نہ ’’البرقانی‘‘ صحیح ہے نہ ’’التوقانی‘‘ صحیح ہے، بلکہ السنن کے تیسرے راوی امام ابو منصور محمد بن محمد بن احمد النوقانی ہیں، جیسا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے المعجم المفہرس (ص: ۴۷) میں ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھیے: سیر أعلام النبلاء (۱۸/۶) ’’سنن دارقطنی‘‘ پر ایک نظر: امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اپنی سنن میں کم و بیش ۴۷۴۹ احادیث ذکر کی ہیں، جنھیں پچیس کتابوں میں جمع کیا ہے اور سب سے پہلے اپنی سنن کو کتاب الطہارۃ سے شروع کیا ہے۔ حدیث کے ذکر کرنے کا طریقہ یہ اختیار کیا کہ اولاً ایک حدیث کے تمام طرق جمع کر دیتے ہیں، پھر متن ذکر کرنے کے بعد اس کی سند پر کلام کرتے ہیں۔ اگر کوئی راوی ضعیف ہوتا ہے تو اس پر جرح کرتے ہیں یا پھر اسے حسن یا صحیح قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اور علت ہوتی ہے تو اس کی وضاحت فرماتے ہیں۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ کی سنن کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ علمائے فن نے اسے حدیث حسن کی معرفت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ حدیث حسن کی تصریح یا تو امام بخاری رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے متفرق اقوال میں ملتی ہے یا پھر جامع ترمذی میں ہے، لیکن چونکہ اس کے نسخے مختلف ہیں۔ بنابریں صحیح طور پر اس کا پتا نہیں چل سکتا
Flag Counter