Maktaba Wahhabi

404 - 462
مولانا محمد عبداللہ محدث فیصل آبادی رحمہ اللہ اس دنیائے فانی میں کون ہے جس نے اپنی بساط بسائی ہو، جو یہاں آیا، بس جانے ہی کے لیے آیا، مگر حقیقت یہ ہے ان جانے والوں میں بعض حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو چلے جانے کے باوجود نہیں جاتے، ان کا نام، ان کا کام ہمیشہ زندہ جاوید رہتا ہے اور ان کی جلائی ہوئی شمع سے ہمیشہ اللہ کی مخلوق مستنیر ہوتی ہے۔ انہی پاکباز ہستیوں میں ایک میرے شیخ میرے مربی استاذ العلماء حضرت مولانا محمد عبداللہ محدث فیصل آبادی مرحوم تھے۔ حضرت الاستاذ رحمہ اللہ سے شناسائی ۱۹۶۶ء میں ہوئی، میں ابھی الجامعۃ السلفیہ میں زیرِ تعلیم تھا، پہلی بار اپنے ہم سبق ساتھی مولانا حافظ محمد عبداللہ صاحب، جو اب ماشاء اللہ بہاولپور یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور انھوں نے دکتورہ بھی کر لیا ہے، کے ہمراہ ان کی خدمتِ اقدس میں جامع مسجد کریمیہ جھال خانوآنہ حاضر ہوا، مگر سوئے اتفاق کہ زیارت نہ ہو سکی۔ حضرت مولانا محمد عبداللہ نثار حفظہ اللہ جو ان ایام میں حضرت مولانا رحمہ اللہ کے ہاں زیرِ تعلیم و تربیت تھے، سے ملاقات ہوئی۔ ان سے اپنی حاضری کا سبب ذکر کر کے واپس لوٹ آیا، البتہ چند ایام بعد دوبارہ حاضر ہوا تو مولانا صاحب کی زیارت سے مشرف ہوا۔ غالباً جمعۃ المبارک کا دن تھا، آپ اس کی تیاری میں مصروف تھے۔ پہلی ملاقات میں انھوں نے اس نامہ سیاہ کی تعلیمی پوزیشن کا جائزہ لے
Flag Counter