Maktaba Wahhabi

394 - 462
تحت اس کے تمام لوازم داخل ہیں اور انہی لوازم میں سے ایک ایمان بالرسل بھی ہے، جب کہ بندوں کو ان کے مالک کا راستہ بتلانے والی ہستی رسول ہی کی ہوتی ہے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کو مانا جائے، مگر اس کے بھیجے ہوئے رسول کو نہ مانا جائے تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کے انکار ہی کے مترادف ہے، گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اللہ تعالیٰ کا انکار ہے، بلکہ تمام انبیا و رسل کو ماننا ایمان کے لیے شرط ہے اور کسی ایک نبی کا انکار کرنا کفر ہے۔ یہود و نصاری تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول ہی نہیں مانتے۔ اس لیے انہیں ایمان دار کہنا درست نہیں۔ پھر اس آیت میں ﴿عَمِلَ صَالِحًا ﴾ کے لفظ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جب کہ عملِ صالح نبی کی اتباع و اطاعت پر موقوف ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد تو اب عملِ صالح اور محبتِ الٰہی کا ذریعہ صرف حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي ﴾ [آل عمران: ۳۱] ’’اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔‘‘ سے واضح ہوتا ہے۔ قرآن پاک اور احادیثِ مبارکہ میں اس پر بے شمار دلائل موجود ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی دوبارہ تشریف لائیں گے تو وہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اطاعت گزار بن کر آئیں گے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ کوئی یہودی یا عیسائی رہ کر بھی ایمان دار ہے، قطعاً صحیح نہیں۔ اور مولانا ابو الکلام کی یہ بات کسی صورت درست قرار نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان اور حضرت حافظ صاحب: حضرت الاستاذ رحمہ اللہ جہاں ایک بہترین مدرس، محقق، محدث، مفسر، مناظر اور مصنف تھے۔ وہاں میدانِ سیاست کے بھی شاہسوار تھے۔ آپ دو قومی نظریے کے زبردست ہامی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے تحریکِ پاکستان میں نہ صرف یہ کہ مسلم لیگ کا ساتھ دیا، بلکہ گوجرانوالہ شہر میں مسلم لیگ کے عہدۂ صدارت پر بھی فائز رہ کر
Flag Counter