Maktaba Wahhabi

393 - 462
درست نہیں۔ اس سے اجتناب تبھی ہو سکتا ہے جب تحقیق کی راہ اختیار کی جائے۔ تقلید نے تو اسلام میں تفرقہ بازی کو ہوا دی ہے۔ حنفی، شافعی نزاع اس شدت سے رہا ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے نمازیں پڑھنا تو کجا رشتۂ مناکحت میں بھی کہا گیا کہ شافعی عورت سے نکاح تو ہو سکتا ہے، مگر شافعیوں کو رشتہ نہیں دینا چاہیے۔ بلکہ بعض نے تو فریقین کے مابین مناظرہ کو ’’معرکۂ جہاد‘‘ سمجھ کر یہ فتویٰ بھی دیا کہ روزہ افطار کرنا جائز ہے، تاکہ پوری قوت سے فریقِ مخالف کا ابطال کیا جا سکے۔ ان مذہبی فرقوں کے مابین لڑائیوں کی داستان بھی طویل ہے۔ اسی تقلید کی بنا پر اسلام کی تقسیم بھی ہوئی۔ صراطِ مستقیم جو ہمیشہ ایک رہا، اسے چوتھائی میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ شعرانی نے لکھا ہے کہ مذہبِ واحد کی تقلید کر کے کوئی آدمی مکمل شریعت پر عمل نہیں کر سکتا۔ چنانچہ اس آیت میں اس کی بھی تردید ہے اور مکمل دین کی تابعداری اور باہم صلح و اتفاق سے رہنے کا حکم ہے، کیوں کہ ’’في السلم‘‘ میں سلم کے معنی صلح کے بھی آئے ہیں۔ جیسے فرمایا: ﴿وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ ﴾ [الأنفال: ۶۱] الآیۃ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ایماندارو! آپس میں مکمل اتفاق و اتحاد سے رہو اور شیطان کے پیچھے چل کر اختلاف کا شکار نہ ہو جاؤ۔ خلاصہ یہ کہ اس آیت سے تحقیق کی تائید اور تقلید و جمود کی تردید بھی ہوتی ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت: ﴿إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا ﴾ [البقرۃ: ۶۲] الآیۃ پر بحث کرتے ہوئے صابیہ کا تعارف اور عملِ صالح کی شروط ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس آیت کو سمجھنے میں مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کو غلطی لگی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آج بھی یہودی یا عیسائی رہ کر اگر کوئی ایمان باللہ، ایمان بالآخرت اور عمل صالح کے تقاضے پورے کرتا ہے تو وہ جنت کا مستحق ہے، یہ صحیح نہیں۔ ایمان باللہ کے
Flag Counter