Maktaba Wahhabi

220 - 462
تعجب کی بات ہے کہ تذکرہ نویسوں نے یہاں صرف علامہ محمد معین کا نام ہی لیا ہے، حالانکہ ٹھٹھہ اس دور میں علم و فضل کا گہوارہ تھا۔ لہٰذا یہ کیونکر باور کیا جا سکتا ہے کہ علم کا شیدائی وہاں پہنچے اور صرف ایک استاد سے ملاقات پر اکتفا کرے۔ اس کے بعد انھوں نے حجازِ مقدس کا رخ کیا۔ سب سے پہلے حج کیا، پھر مدینہ طیبہ پہنچ کر شیخ عبداللہ بن سالم بصری مکی (م ۱۱۳۴ھ) شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم (م ۱۱۴۵ھ) شیخ حسن بن علی العجیبی وغیرہ سے استفادہ کیا، مگر حدیث پاک کا زیادہ تر درس اپنے ہی ہم وطن اور وقت کے معروف شیخ علامہ ابو الحسن محمد بن عبدالہادی سندھی ثم المدنی (م ۱۱۳۹ھ) سے لیا۔[1] اور انہی کے فیضِ صحبت سے علمِ حدیث میں تبحر حاصل کیا۔ مدینہ طیبہ کا توطن اور استاد کی جانشینی: تحصیلِ علم کے بعد مدینہ طیبہ ہی کو اپنا مسکن بنایا اور اپنے شیخ ابو الحسن سندھی رحمہ اللہ کے بعد مسندِ تدریس کو رونق بخشی اور پورے ۲۴ سال توکلاً علی اللہ حدیث پاک کا درس دیتے رہے اور بقیہ زندگی اسی مبارک علم کی خدمت میں صرف کر دی اور یوں شیخ کی جانشینی کا حق ادا کیا۔ سید عبدالحی لکھتے ہیں: ’’ولازم الشیخ الکبیر أبا الحسن محمد بن عبد الھادي السندي المدني وأخذ عنہ وجلس مجلسہ بعد وفاتہ أربعاً وعشرین سنۃ‘‘[2] گویا مدینۃ الرسول میں عمرِ عزیز کا باقی حصہ حدیثِ رسول پڑھانے میں صرف
Flag Counter