Maktaba Wahhabi

280 - 462
کی تصنیف و تالیف میں بھی شریک رہے۔[1] اور مولوی محمد ایوب صاحب بھی علومِ دینیہ کے فاضل تھے۔ تحصیلِ علوم سے جب فارغ ہوئے تو حضرت میاں صاحب دہلوی رحمہ اللہ نے گود میں لے کر دعا دی اور سندِ فضیلت مرحمت فرمائی۔ (اہلِ حدیث‘‘ امرتسر) وفات: متحدہ ہندوستان میں ۱۹۱۰ء، ۱۹۱۱ء میں جب طاعون کی بیماری پھیلی تو اس کی لپیٹ میں پٹنہ بھی آیا۔ محدث ڈیانوی پہلے سے بیمار چلے آ رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ہوا بدلی کی خاطر کسی موزوں مقام پر چند دن گزارنے جائیں۔ چنانچہ اس کے لیے انھوں نے ’’راج گیر‘‘ کو منتخب فرمایا اور وہاں تشریف لے گئے۔ پروگرام یہ تھا کہ وہاں سے احبابِ دہلی کو ملتے ہوئے واپس گھر آئیں گے۔ مگر چند دن بعد ’’راج گیر‘‘ ہی میں انھیں اطلاع ملی کہ ان کے قصبہ ڈیانواں میں طاعون پھیل گیا ہے۔ مولانا حیران و پریشان واپس تشریف لائے تو سارے قصبہ پر ویرانی کا سماں طاری تھا۔ ۱۴ مارچ ۱۹۱۱ء کو ان تمام حالات سے آگاہ کرتے ہوئے خود حضرت موصوف نے اپنے ہاتھ سے ایک خط شیخ الاسلام امرتسری رحمہ اللہ کو لکھا۔ مگر کرنا قدرت کا کہ اگلے دن یعنی ۱۵ مارچ ہی کو خود آپ اس بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ جس کی اطلاع آپ کے صاحبزاے حکیم مولوی محمد ادریس صاحب نے آپ کے احبا و اقربا کو دی۔ مولانا امرتسری مرحوم نے اس خبر کو اپنے جریدہ ’’اہلِ حدیث‘‘ میں شائع کیا اور ’’عامۃ المسلمین‘‘ سے ان کی صحت و عافیت کی دعا کا اعلان کیا۔[2] لیکن ع جس کا کھٹکا تھا وہ گھڑی بھی آگئی
Flag Counter