Maktaba Wahhabi

302 - 462
ایک نسخہ تھا، جس کا متعدد نسخوں سے مقابلہ کرتے ہوئے پوری کتاب کو تحشیہ و تعلیقات سے آراستہ کیا گیا تھا۔ جس میں کتاب کے تمام مشکل مقامات کا حل تھا اور حضرت شاہ صاحب کا علما پر یہ بہت بڑا احسان تھا۔ خوش قسمتی سے یہی نسخہ حضرت میاں صاحب کے ہاتھ لگا۔ لیکن ۱۸۵۷ء کے حادثہ فاجعہ میں یہ قیمتی نسخہ ضائع ہو گیا۔ میاں صاحب کو ہمیشہ اس کا رنج و الم دامن گیر رہتا اور بارہا فرماتے کہ کاش کہیں وہ نسخہ مل جائے تو باوجود کمی سرمایہ کے ہر قیمت پر اسے خرید لوں۔ حضرت میاں صاحب کی زبان سے ہمارے دوست ابو الطیب (محدث ڈیانوی) نے بارہا یہ تذکرہ سنا تو یہ سنن ابی داود کی شرح کا سبب بنا۔ جس میں انھوں نے اپنی تمام تر کوشش صرف کر دی۔‘‘[1] خوشا قسمت کہ محدث ڈیانوی اپنے مقصد عزیز میں کامیاب و کامران ہوئے حضرت میاں صاحب کی زندگی ہی میں جب اس کی تین جلدیں شائع ہوئیں تو انھیں دیکھ کر نہایت خوش ہوئے اور جب سنن کا مطالعہ کرتے تو اس کے شارح و طابع کے لیے دعا کرتے اور فرماتے: ’’زال عني الغموم التي حصلت لي بإضاعۃ النسخۃ العزیزیۃ‘‘ ’’نسخۂ عزیزیہ کے ضیاع سے جو غم لاحق ہوا تھا وہ اس نسخے سے دور ہو گیا۔‘‘ جس سے اس شرح اور اس کے متن کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عون المعبود کی اہمیت: اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ محدث ڈیانوی رحمہ اللہ نے عرب و عجم سے سنن ابی داود کے گیارہ نسخے جمع کیے۔ جن میں تین مطبوعہ اور آٹھ خطی
Flag Counter