Maktaba Wahhabi

230 - 462
کے اخلاص اور سنت سے محبت کا بھی علم ہوتا ہے۔ تلامذہ: آپ کے علم و فضل کا غلغلہ ہر سو تھا اسی کا نتیجہ تھا کہ سرزمینِ حجاز کے علاوہ مصر، شام اور ہند وغیرہ ممالک سے تشنگانِ علم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور حسبِ استطاعت کسبِ فیض کر کے اپنے مراکز میں بیٹھ کر انہی کے مشن کو پھیلانے کی کوشش کرتے۔ علامہ سندھی رحمہ اللہ سے جن حضرات نے فیض حاصل کیا ان کے طبائع میں عجب تنوع پایا جاتا ہے۔ اگر ایک طرف حسان الہند مولانا غلام علی آزاد بلگرامی ۱۱۲۰ھ جیسے عظیم مورخ، محقق، ادیب اور شاعر ہیں تو دوسری طرف شیخ محمد صادق سندھی (م ۱۱۸۷ھ) صاحبِ ’’بہجۃ النظر شرح شرح نخبۃ الفکر‘‘ شیخ امام محمد بن احمد السفارینی صاحب ’’لوائح الانوار السنیۃ‘‘ شیخ محمد فاخر إلٰہ آبادی (م ۱۱۶۴ھ) صاحبِ ’’درۃ التحقیق فی نصرۃ الصدیق، قرۃ العینین در اثبات سنتِ رفع الیدین، الرسالۃ النجاتیہ‘‘ وغیرہ، مولانا شیخ فقیر اللہ شکار پوری صاحب[1] وثیقۃ الاکابر جیسے نامور محدث مصنف اور عارف باللہ اور شیخ الاسلام محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ جیسے عظیم مجاہد مبلغ و مصلح ہیں۔ مولانا عبدالجلیل سامرودی مرحوم نے علامہ امیر یمانی کو بھی علامہ سندھی رحمہ اللہ کے تلامذہ میں ذکر کیا ہے، جس کی تائید ان کی تصانیف سے ہوتی ہے، اسی طرح انھوں نے علامہ صالح فلانی کو بھی شاگرد کہا ہے علامہ عبدالحی الکتانی نے بھی ’’فہرس الفہارس‘‘[2] میں ذکر کیا ہے کہ انھیں علامہ سندھی سے اجازہ حاصل تھا، لیکن علامہ
Flag Counter