Maktaba Wahhabi

269 - 462
اللہ تعالیٰ نے تین صفات خاص طور حضرت شیخ الکل میں جمع کر دی تھیں۔ 1. تقویٰ و خشیتِ الٰہی اور مکارمِ اخلاق کے پیکر تھے۔ 2. تفسیر و حدیث اور فقہ میں یگانۂ روزگار۔ 3. اصحابِ فضائل اور اہلِ تحقیق تلامذہ کا وسیع ترین حلقہ ان کی سرکار سے وابستہ تھا۔ سید عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اصحابِ علم و نقد کی تعداد تقریباً ایک ہزار ہے اور ان کے تلامذہ کے طبقۂ اولیٰ و ثانیہ کی تعداد کئی ہزاروں میں ہے۔[1] یہاں یہ لطیفہ بھی معلوم کیجیے کہ ان کے تلامذہ میں شیخ ابو الخیر احمد بن عثمان المکی الہندی رحمہ اللہ بھی ہیں اور انہی کے واسطے سے علامہ عبدالحی الکتانی رحمہ اللہ کو حضرت میاں صاحب سے تلمذ حاصل ہے۔ شیخ ابو الخیر کا ثبت ’’النفخ المسکي لمعجم شیوخ أحمد المکي‘‘ کے نام سے ہے علامہ الکتانی نے ذکر کیا ہے کہ میاں صاحب کے ’’وہابی‘‘ ہونے کی وجہ سے شیخ ابو الخیر نے انھیں اپنے شیوخ میں ذکر نہیں کیا۔[2] سبحان اللہ 2. الشیخ العلامۃ القاضی حسین بن محسن الانصاری رحمہ اللہ : آپ حضرت ڈیانوی کے دوسرے قابلِ فخر استاد ہیں، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ ۱۲۴۵ھ میں پیدا ہوئے۔ ۱۳ سال کی عمر میں تعلیم کا آغاز کیا۔ علامہ سید حسین بن عبدالباری رحمہ اللہ سے مکمل آٹھ سال تک استفادہ کیا اور سندِ فضیلت حاصل کی۔ ان کے علاوہ اپنے بھائی شیخ محمد بن محسن انصاری رحمہ اللہ پر بھی ’’صحیح بخاری‘‘ کی قراء ت کی۔ بعد ازیں امام شوکانی رحمہ اللہ کے صاحبزادے علامہ قاضی احمد رحمہ اللہ سے بھی اجازہ حاصل کیا
Flag Counter