Maktaba Wahhabi

126 - 462
جس میں کسی ایسی مخفی علت کا پتا چلے جس سے حدیث میں قدح وارد ہو جاتی ہے۔ اگرچہ وہ حدیث بظاہر ضعف سے سالم نظر آتی ہو، محدثین اس کا نام معلول بھی رکھتے ہیں جو ’’عَلَّ‘‘ فعل ماضی سے اسم مفعول ہے، اسی لیے بعض نے کہا ہے کہ بہتر یہ ہے اسے لغتاً ’’معلَّ‘‘ دو لام سے پڑھا جائے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدیث معلل کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ھو من أغمض أنواع الحدیث وأدقھا ولا یقوم بہ إلا من رزقہ اللّٰه تعالیٰ فھما ثاقباً و حفظاً واسعاً ومعرفۃ تامۃ بمراتب الرواۃ وملکۃ قویۃ بالأسانید والمتون‘‘[1] خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس فن کی مثال درہم کی سی ہے کہ ان میں درہم کھرے بھی ہوتے ہیں اور کھوٹے بھی۔ لیکن ان کی حقیقت کو ایک کامیاب جوہری ہی پا سکتا ہے۔ اسی طرح علمِ حدیث کی مثال ہے ان میں بعض احادیث ضعیف ہوتی ہیں بعض صحیح اور بعض میں علت غامضہ ہوتی ہے، لیکن اس کا پتا وہی شخص لگا سکتا ہے، جسے اس فن میں مہارت تامہ میسر ہو، بلکہ بعض اہلِ علم نے تو اس فن کو وہبی یا الہامی بھی کہا ہے اور یہی وہ خاردار وادی ہے جس میں ہر شخص قدم نہیں رکھ سکا، بلکہ جسے قدرتِ الٰہی نے اپنے خصوصی فیضان سے فہم ثاقب اور حفظ واسع سے نوازا ہو وہی اس وادی میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’محدثین کی قلیل جماعت نے اس پر قلم اٹھایا ہے۔‘‘ دیگر اصحابِ علل ہم یہاں ان محدثین کرام کا ذکر مناسب خیال کرتے ہیں، جنھوں نے اس فن پر
Flag Counter