Maktaba Wahhabi

376 - 462
ترجیح کا تقدم واضح ہے، کیوں کہ راجح پہلو کا لینا انسان کا فطرتی عمل ہے۔ مگر دوسری طرف وہ اس کے قائل ہیں کہ قرآن پاک کی تخصیص سنت سے جائز ہے، حالانکہ یہ بھی من وجہ تطبیق ہے اور یہ بات تو بالکل بین اور ظاہر ہے کہ قرآن پاک راجح ہے۔ اسی طرح حنفیہ کے ہاں تخصیص السنہ بالسنۃ اور تخصیص الکتاب بالتواتر و بالعکس جائز ہے وہ ان کے مابین قوتِ دلیل کا اہتمام نہیں کرتے۔ مزید فرمایا کہ تعجب ہے کشمیری صاحب اس اصولی بحث میں حنفیہ کے موقف کو صحیح سمجھتے ہوئے ترجیح کو تطبیق سے مقدم جانتے ہیں، مگر خود امام ابو حنیفہ کے مختلف اقوال میں حنفیہ کی رائے کے خلاف ہیں۔ چنانچہ انھوں نے ’’کتاب الغسل‘‘ میں کہا ہے کہ ہمارے مشایخ کا عموماً عمل یہ ہے کہ جب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مختلف اقوال منقول ہوں تو ان میں ترجیح کا پہلو اختیار کرتے ہوئے ظاہر الروایت کو لیتے ہیں اور نوادر کو چھوڑ دیتے ہیں، لیکن یہ میرے نزدیک صحیح نہیں۔ بالخصوص جب کہ نوادر کی تائید حدیث سے ہو تو میں روایتِ نوادر کو لیتا ہوں اور میں اس کی پروا نہیں کرتا کہ وہ قول نوادر سے ہے۔ البتہ مشایخ کے اقوال میں اگر اختلاف ہو تو پھر ترجیح مناسب ہے کیوں کہ یہ بات کہنے والے مختلف اور متعدد ہوں تو ان میں تضاد ظاہر ہے اور بسا اوقات ان کے اقوال میں تطبیق کی کوشش ان کے مقصود و منشا کے خلاف ہو گی۔ اس لیے یہاں تو ترجیح کے بغیر چارہ نہیں برعکس جب کہ اختلاف ایک ہی قائل کے قول میں ہو تو وہاں تطبیق اولیٰ ہے، کیوں کہ ایک متکلم کے کلام میں اصل یہ ہے کہ اس میں تضاد نہ ہو، لہٰذا یہاں پہلے تطبیق کی کوشش ہو گی۔ تعجب ہے کہ ہمارے حضرات جب مختلف احادیث دیکھتے ہیں تو ان کے مابین جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں، مگر جب امام صاحب کے اقوال میں اختلاف پاتے ہیں تو ترجیح کے پہلو کو اختیار کرتے ہیں۔ جمع و تطبیق کے راستے کو چھوڑ دیتے ہیں۔
Flag Counter