چنانچہ نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ آپ سے پہلے کے انبیاء نے لوگوں کے لیے یہ مشروع کیا کہ وہ فرشتوں،انبیاء،یا صالحین کو پکاریں اور ان سے سفارش طلب کریں۔اور نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے سچے تابعین میں سے کسی نے ایسا کیا اور نہ مسلمانوں کے اماموں میں سے کسی نے اسے پسند کیا،نہ ائمۂ اربعہ نے،نہ ہی ان کے علاوہ کسی امام نے،نہ کسی ایسے مجتہد نے جس کے قول پر دین میں اعتماد کیا جاتا ہو،نہ کسی ایسے شخص نے جس کی بات کا اجماع کے مسائل میں اعتبار ہو۔تمام تعریفیں اللہ ربّ العالمین کے لیے ہی لائق ہیں۔[1]
چوتھا مطلب....بھرپور نعمتوں سے نوازنے والا ہی عبادت کا مستحق ہے:
مشرکین کو اللہ کی طرف دعوت دینے میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی نگاہوں اور دلوں کو اللہ کی ظاہری و باطنی اور دینی و دنیوی عظیم نعمتوں کی طرف پھیرا جائے،کیونکہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر تمام نعمتیں نچھاور کردی ہیں۔ارشاد ہے:
﴿وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ﴾ [النحل:۵۳]
’’ اور تم پر جو بھی نعمتیں ہیں سب اللہ کی دی ہوئی ہیں۔‘‘
یہ دنیا اور دنیا کی ساری مخلوقات اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے مسخر کی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کو بیان فرمایا ہے اور ان کے ذریعہ سے بندوں پر اپنا احسان جتلایا ہے اور یہ کہ وہی تنہا عبادت کا مستحق ہے۔اللہ نے جن نعمتوں کے ذریعہ سے بندوں پر احسان جتلایا ہے،وہ درج ذیل ہیں :
٭ اوّلاً: ....اجمالی طور پر:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
|