نیز فرمایا:
’’جو لوگ اہل سنت کی موت کی تمنا کرتے ہیں،وہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے گل کرنا چاہتے ہیں،اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل کرکے رہے گا اگرچہ کافروں کو ناگوار گزرے۔‘‘[1]
تیسرا مطلب....سنت مطلق نعمت ہے:
نعمت دو قسم کی ہوتی ہے:
(۱) نعمت مطلق (۲) نعمت مقید
اولاً: نعمت مطلق:....نعمت مطلق وہ نعمت ہے جس کا تعلق بندے کے ابدی فوز و فلاح اور سعادت مندی سے ہے،اور وہ اسلام اور سنت کی نعمت بے بہا ہے،کیونکہ انسان کی دنیوی و اخروی سعادت تین بنیادی ارکان پر موقوف ہے،اسلام،سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دنیا و عقبیٰ میں عافیت و سلامتی۔اسلام اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نعمت ہی وہ نعمت ہے جس سے سرفراز مندوں کے راہ کی راہنمائی طلب کرنے کا اللہ عزوجل نے ہمیں اپنی نمازوں میں حکم دیا ہے،اور انہیں رفیق اعلیٰ کا مستحق ٹھہرایا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا﴾ (النساء:۶۹)
’’اور جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے،وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا ہے،جیسے انبیاء،صدیقین،شہدا اور صالحین،اور یہ لوگ کیا ہی بہترین ساتھی ہیں۔‘‘
یہ چار اصناف کے لوگ ہی اس نعمت مطلق کے مستحق ہیں جن کی طرف اللہ کے درج ذیل فرمان میں اشارہ کیا گیا ہے:
|