اسی لیے اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو دین میں غلو کرنے،قول،فعل یا اعتقاد سے کسی کی بہت زیادہ تعظیم کرنے اور مخلوق کو اس کے اپنے مرتبہ سے جس پر اللہ تعالیٰ نے اسے فائز کیا ہے بلند کرنے سے ڈرایا ہے،چنانچہ ارشاد ہے:
﴿يَاأَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ ﴾ [النساء:۱۷۱]
’’ اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزرجاؤ،اور اللہ پر حق بات ہی کہو،حضرت مسیح ابن مریم( علیہ السلام ) تو صرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اس کے کلمہ (لفظ کُنْ سے پیدا شدہ) ہیں،جسے مریم (علیہا السلام) کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس روح ہیں۔‘‘
۲۔تعریف میں مبالغہ،حد سے تجاوز اور دین میں غلو کی ممانعت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو حد سے زیادہ بڑھانے سے منع فرمایا ہے،ارشاد ہے:
(( لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَارٰی اِبْنَ مَرْیَمَ فَإِنِّيْ أَنَا عَبْدُہُ،فَقُوْلُوْا: عَبْدُاللّٰہِ وَرَسُوْلُہُ۔)) [1]
’’ مجھے اس طرح سے نہ بڑھانا جس طرح عیسائیوں نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کو بڑھادیا،میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں،لہٰذا تم مجھے اللہ کا بندہ اور رسول ہی کہنا۔‘‘
نیز ارشاد ہے:
(( إِیَّاکُمْ وَالْغَلُوَّ فِي الدِّیْنِ،فَإِنَّمَا أَھْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمُ الْغُلُوُّ فِي الدِّیْنِ۔)) [2]
|