’’کیا ان کے لیے ایسے شرکاء ہیں جنہوں نے اللہ کے دین میں اللہ کی فرمائی ہوئی چیزوں کے علاوہ احکامِ دین مقرر کردیے ہیں،اگر فیصلہ کے دن کا وعدہ نہ ہوتا تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا،یقیناً ظالموں کے لیے ہی دردناک عذاب ہے۔‘‘
رابعاً: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدعات سے بچنے اور دور رہنے کی تنبیہ کی ہے اور صراحت فرما دی ہے کہ ہر بدعت گمراہی اور بدعتی کے منہ پردے ماری جانے والی (ناقابل قبول) ہے۔چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ أَحْدَثَ فِيْ اَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ۔))[1]
’’جس کسی نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات ایجاد کی جو اس میں سے نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
((مَنْ عَمِلَ عَمًلاً لَیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ۔))[2]
’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے اسلام میں نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
سلف صالحین نے بھی بدعات سے ڈرایا ہے کیونکہ بدعات دین اسلام میں زیادتی اور شریعت کا ایک ایسا طریقہ ہے جس کی نہ اللہ عزوجل نے اجازت دی ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے،بلکہ یہ اللہ کے دشمن یہود و نصاریٰ کی مشابہت ہے،جس طرح انہوں نے اپنے اپنے دین (یہودیت و عیسائیت) میں نئی نئی چیزوں کا اضافہ کرلیا۔[3]
(۴) شعبان کی پندرہویں شب میں جشن منانا:
امام محمد بن وضاح القرطبی اپنی سند سے بروایت عبدالرحمن بن زید بن اسلم نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
|