اعمال ایمان کے نام میں داخل ہیں ‘‘ سے یہی معنی مراد لیتے ہیں۔
دوسری حالت یہ ہے کہ ایمان اور اسلام کا ایک ساتھ ذکر کیا جائے،ایسی صورت میں ایمان کی تفسیر پوشیدہ عقائد سے کی جائے گی،جیسے اللہ،اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں،اس کے رسولوں،یومِ آخرت اور اچھی و بری تقدیر پر ایمان رکھنا،جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ﴾ (النساء:۵۷)
’’ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیئے۔‘‘
اور اسلام کی تفسیر اعضا و جوارح کے ظاہری اعمال سے کی جائے گی،جیسے شہادتین کا اقرار،نماز،زکوٰۃ،روزہ،حج اور ان کے علاوہ دیگر اعمال،[1] جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ﴾ (الاحزاب:۳۵)
’’ بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتین اور مومن مرد اور مومن عورتیں۔‘‘
چنانچہ جب ایمان و اسلام کا علیحدہ علیحدہ ذکر ہوگا تو دونوں کا معنی ایک ہوگا،اور جب دونوں کا اکٹھا ذکر ہوگا تو دونوں کے معانی مختلف ہوں گے،بعینہ ’’ فقیر اور مسکین ‘‘ کی طرح،کہ جب دونوں میں سے ایک کا تنہا ذکر ہوگا تو دوسرا بھی (اس میں ) شامل ہوگا،اور جب دونوں اکٹھا ذکر کیے جائیں گے تو ہر ایک کا خاص اور الگ مفہوم ہوگا۔[2]
دوسرا مطلب:....حصولِ ایمان اور اس میں زیادتی کے اسباب و ذرائع:
ایمان بندے کا کمال ہے،اسی سے دنیا و آخرت میں اس کے درجات بلند ہوتے ہیں،وہی ہر طرح کی دیر سویر بھلائی کے حصول کا سبب اور ذریعہ ہے۔ایمان کا حصول،اس میں
|