اور اس طرح کے دیگر تمام ذرائع کا خاتمہ وغیرہ۔[1]
علامہ سعدی رحمہ اللہ کتاب التوحید کی تعلیق میں ’’باب من تبرک بشرۃ أو حجرۃ أو نحوہا‘‘ (درخت یا پتھر سے تبرک کے حصول کا بیان) کے تحت فرماتے ہیں :
’’یعنی یہ شرک اور مشرکین کے اعمال میں سے ہے،اس لیے کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی بھی درخت،پتھر،جگہ اور مشاہد وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں ہے،اس لیے کہ یہ تبرک ان اشیا میں غلو ہے،جس کا انجام رفتہ رفتہ انہیں پکارنا اور ان کی عبادت کرنا ہے اور یہی شرک اکبر ہے،جیسا کہ اس سلسلہ میں حدیث گزر چکی ہے اور یہ حکم تمام چیزوں کو عام ہے،حتیٰ کہ مقام ابراہیم،حجرۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم،قبۂ بیت المقدس اور اس کے علاوہ دیگر مقامات مقدسہ بھی اس میں شامل ہیں۔
رہا خانۂ کعبہ میں حجر اسود کو چھونا اور چومنا اور رکن یمانی کو چھونا تو یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی عبادت،اس کی تعظیم اور اس کی عظمت و جلال کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے،جو کہ عبادت کی روح ہے۔
چنانچہ یہ باری تعالیٰ کی تعظیم اور اس کی عبادت ہے اور وہ مخلوق کی تعظیم اور اس کی عبادت ہے اور ان دونوں کے درمیان اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ اللہ تعالیٰ کو پکارنے اور مخلوق کو پکارنے کے درمیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کو پکارنا اور اس کی دہائی دینا توحید و اخلاص ہے اور مخلوق کو پکارنا شرک باللہ ہے۔[2]
(۶) مختلف قسم کی منکر بدعات:
بطور مثال چند بدعات درج ذیل ہیں :
۱: مثلاً: کوئی شخص یوں کہے کہ: ’’نَوَیْتُ أَنْ أُصَلِّيَ لِلّٰہِ کَذٰا وَکَذٰا‘‘ (میں نیت کرتا
|