Maktaba Wahhabi

320 - 326
ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اتنی نماز پڑھوں گا) یا ’’نَوَیْتُ أَنْ أَصُوْمَ ہَذَا الْیَوْمَ فَرْضَا أَوْ نَفْلًا لِلّٰہِ تَعَالیٰ‘‘ (میں نیت کرتا ہوں کہ آج اللہ تعالیٰ کے لیے فرض یا نفل روزہ رکھوں گا) یا یہ کہے کہ ’’نَوَیْتُ أَنْ أَتَوَضَّأَ،أَوْ نَوَیْتُ أَنْ أَغْتَسِلُ،أَوْ نَحْوَ ذٰلِکَ۔‘‘(میں وضو کرنے کی نیت کرتا ہوں یا غسل کرنے کی نیت کرتا ہوں،وغیرہ) اس طرح زبان سے بول کر نیت کرنا بدعت ہے،کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت نہیں ہے اور اس لیے بھی اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿قُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴾ (الحجرات:۱۶) ’’کہہ دیجیے! کیا تم اللہ تعالیٰ کو اپنی دین داری سے آگاہ کر رہے ہو،اللہ تعالیٰ ہر اس چیز سے جو آسمانوں اور زمین میں ہے بخوبی آگاہ ہے اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔‘‘ نیت کی جگہ دل ہے،اس لیے کہ نیت قلبی عمل ہے نہ کہ زبانی عمل،حافظ ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’نیت دل کے ارادے کا نام ہے،اس لیے کسی بھی قسم کی عبادت کہ سلسلہ میں جو چیز دل میں ہو اسے زبان سے کہنا واجب نہیں۔‘‘[1] ۲: مشروع یہ ہے کہ ہر شخص انفرادی طور پر ذکر و دعا کرے،جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پنج وقتہ نمازوں کے بعد اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو سکھلایا تھا،کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو عملی جامہ پہنانے والے تھے،لہٰذ اس میں کوئی شک نہیں کہ اجتماعی ذکر و دعا بدعت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔
Flag Counter